آرڈیننس کا اجرا جمہوری طریقہ کار ہی نہیں،عدالت عظمیٰ

163

اسلام آباد (صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے ریمارکس د یے ہیں کہ جمہوری نظام حکومت میں تو پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے،آرڈیننس تو جمہوری طریقہ کار ہی نہیں ہے۔عدالت عظمیٰ میں سیکنڈ ایمپلائز ایکٹ نظر ثانی کیس پر سماعت ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بہت لوگ نکالے گئے لیکن ایکٹ صرف خاص گروپ کو ریلیف دینے کے لیے کیوں بنایاگیا؟قانون سازوں کے ذہن تو نہیں پڑھ سکتے تاہم پیش کی گئی دستاویزات بھی خاموش ہیں، تقرریاں درست ہوں یا غلط کیا دس بارہ سال ملازمت کا کوئی فائدہ دیا جا سکتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیصلے سے دس بارہ سال ملازمت سے حاصل ہونے والے فائدے کو بھی روک دیا گیا ۔وکیل حامد خان نے دلائل دیے کہ19سال کی عمر میں بھرتی ہونے والا بھی40سال کا ہوچکا ہے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرڈیننس کے ذریعے ہونے والی بھرتیوں کا اسٹیٹس بھی دیکھنا ہے، آ رڈیننس تو ختم ہو جاتا ہے کیا اس کے تحت بھرتی ہونے والے ملازمین رہ سکتے ہیں ؟جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آ رڈیننس تو جمہوری طریقہ کار ہی نہیں ، پھر تو ہر حکومت آرڈیننس لائے بھرتیاں کرے،ایسے تو سارے کام آ رڈیننسزہی سے چلتے رہیں گے،جمہوری نظام حکومت میں تو پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے۔وکیل رضا ربانی نے موقف اختیار کیا کہ موجودہ دور حکومت میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی کیس کا جائزہ لیتے ہوئے کیس کے نتیجے کا بھی جائزہ لے رہے ہیں، اٹارنی جنرل عدالتی سوالات پر دلائل دیں، کتنے ملازمین حکومتی اداروں اور کتنے خود مختار اداروں سے ہیں، کس ادارے نے ملازمین کے تقرر کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا، عدالتی فیصلوں کے باوجود کیا ملازمین کو یوں بحال کیا جا سکتا تھا، کیا دوبارہ بحالی کے عمل میں ملازمین میں تفریق ہو سکتی ہے، پہلے حکومت نے مخالفت کی اور اب حمایت کی کیا وجہ ہے۔عدالت نے مزید سماعت13 دسمبر تک ملتوی کردی۔