بادی النظر میں رانا شمیم کے بیان حلفی کے پیچھے نیک نیتی نظر نہیں آتی، اسلام آباد ہائی کورٹ

303

اسلام آباد: ہائی کورٹ نے رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے، جس میں عدالت کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں رانا شمیم کے بیان حلفی کے پیچھے نیک نیتی نظر نہیں آتی۔

تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ حکم نامے میں رانا شمیم اور میر شکیل الرحمان سمیت تمام فریقین کے جواب غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ بے بنیاد بیان حلفی اور غلط خبر پر کیوں نا تمام فریقین پر فرد جرم عائد کی جائے؟۔

عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں اس وقت بیان حلفی کے پیچھے نیک نیتی نظر نہیں آتی، 3 سال تک رانا شمیم کی خاموشی ان کی سچائی پر سوال کھڑا کرتی ہے؟، رانا شمیم نے 15 جولائی 2018 کی گفتگو کا حوالہ دیا، بیان حلفی میں ایک ایسے جج کا نام آیا جو بیرون ملک چھٹیوں پر تھے۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ رانا شمیم نے جواب میں واضح کہا کہ انہوں نے بیان حلفی اخبار کو نہیں دیا، اپیلوں کی سماعت کے وقت بیان حلفی کی اخبار میں اشاعت کے علاوہ رپورٹر، ایڈیٹر اور پبلشر کے پیشہ وارانہ طرزعمل بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر برطانوی نوٹری پبلک نے اجازت کے بغیر بیان حلفی لیک کیا تو سنگین نتائج ہوں گے، عدالت گراونڈز موجود ہیں جو رانا شمیم کا بیان حلفی غلط دکھاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خبر کی اشاعت کا وقت بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وقت ان اپیلوں سے متعلق ہے جو سماعت کیلئے مقرر تھیں، ایک اخبار کے رپورٹر اور پبلشر پربھی سوال اٹھتا ہے۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ بیان حلفی نوٹری پبلک لندن نے لیک کیا، جس کے بعد اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ رانا شمیم اب اصل بیان حلفی پیش کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس پر مزید سماعت 13 دسمبر کو ہوگی، فریقین مطمئن کریں کیوں نہ ان پر فرد جرم عائدکرکےقانونی کارروائی کی جائے۔