سری لنکن شہری کے قتل کے بعد پاکستانی میڈیا میں ایک شور مچا ہوا ے کہ یہ دو ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی سازش ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جوں ہی واقعہ پیش آیا پورے پاکستان میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ وزیراعظم سے لے کر ایس ایس پی تک شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایس ایچ او بھی شرمندہ ہیں اور صدر مملکت بھی… میڈیا میں یہ آواز بھی آئی ہے کہ ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہو گیا۔ لیکن سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے مسلمان جنونی ہیں اس قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا اسلام میں غیر مسلموں کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ کیا یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایس ایچ سے صدر تک کوئی یہ بات نہیں کر رہا کہ ریاست نے کہاں کہاں اپنی ذمے داری پوری کی۔ سیالکوٹ کا واقعہ پندرہ بیس منٹ میں ختم نہیں ہوا بلکہ گھنٹوں چلتا رہا۔ پولیس ریاست سب غائب، وزیراعظم عمران خان کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ صدر مملکت کو بھی افسوس ہے۔ علمائے کرام وضاحتیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سوال اب ایک مرتبہ پھر منہ پھاڑ کر کھڑا ہے کہ یہ واقعات کیوں ہوتے ہیں۔ کیا ریاست نے ملک میں ایسا نظام وضع کیا ہے کہ لوگوں میں یہ شعور پیدا ہو جائے کہ کس مسئلے کا حل کہاں ہوتا ہے۔ اگر کوئی توہین رسالت کرے، یا معمولی چوری کرے تو اس مسئلے کو کہاں حل کیا جانا چاہیے۔ کسی پر کوئی بھی الزام لگایا جانا اور اس کو سنتے ہی قانون ہاتھ میں لینا کہاں تک درست ہے۔ اس کا بہت بڑا سبب حکمرانوں کا ماضی کا رویہ ہے اور حال کا رویہ بھی یہی ہے کہ ایسے کسی معاملے میں قوم کی تربیت نہیں کی جاتی جس سے قومی مزاج بنے اور جو بنیادی مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ سیالکوٹ کا واقعہ بھی ریاست پر عدم اعتماد کی وجہ سے پیش آیا، پاکستان میں توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح بڑے مزے سے ملک سے باہر چلی گئی، ایسے درجنوں لوگ ملک سے وی آئی پی طریقے سے نکل جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک قادیانی بھی گیا اور اب ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ لیکن حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ سلمان تاثیر نے ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل سے قبل جو بیان دیا تھا وہ بجائے خود ریاست کے اداروں کی ناکامی کا اعلان تھا۔ اگر حکومت اور عدالتیں کسی فرد کو توہین رسالت کا مجرم سمجھتی ہیں اور قرار دے دیتی ہیں تو انہیں ان کو سزا سنانی چاہیے اور اگر کسی کو مجرم نہیں سمجھتی ہیں تو انہیں بری کرنا چاہیے دونوں فیصلوں کا بار اپنے اوپر اٹھانا چاہیے۔ ویسے تو روز سنتے ہیں کہ ریاست آزاد ہے، عدلیہ آزاد ہے۔ عدالت کی توہین کی تو جیل بھیج دیا جائے گا لیکن ملک میں ناموس رسالت کا قانون نافذ ہی نہیں ہو رہا۔ یہ قانون ایسے ہی حوادث کو روکنے کے لیے حفاظتی بند ہے۔ اگر حکومت کوئی فیصلہ کرلے تو اس کی پشت پر دلائل بھی ہوں گے۔ وہ ان فیصلوں کی ذمے داری اپنے سر لے۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ توہین رسالت کے ذمے دار یا ملزم وی آئی پی بن کر ملک سے جا رہے ہیں تو وہ ایسے ہی ردعمل کا اظہار کریں گے۔ جو کسی طور بھی درست نہیں۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔ لیکن ریاست اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہی۔ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والوں کے دور میں نبی کی عصمت کی اتنی تو قدر ہونی چاہیے کہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے اسے معلوم ہو کہ لوگ نہیں ریاست حرکت میں آئے گی۔ اب 100 لوگ پکڑے گئے ہیں۔ تحقیقات ہوگی، مقدمہ چلے گا، کئی برس گزر جائیں گے اور پھرلوگ اگلے سانحے تک اس مقدمے کے فیصلے کا مطالبہ کرنا بھی بھول جائیں لیکن یہ الٹ معاملہ ہے۔ غلام ملک کے غلام حکمرانوں کی نفسیات ہے کہ ایسے معاملات میں جلد فیصلے کرتے ہیں۔ اگر ریاست نے قانون ناموس رسالتؐ کو نافذ نہیں کیا ایمانداری سے، اسے بروئے کار نہیں لائے تو ایسے واقعات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اب میڈیا کے بارے میں غور کریں کہ میڈیا نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اسلام ایسے کام کی اجازت دیتا ہے۔ یہ دو ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کی سازش ہے۔ یاد کریں کچھ ہی دن قبل سری لنکا میں مسلمانوں کی میتیں جلائی جا رہی تھیں۔ بھارت میں مسلمان زندہ جلائے گئے، کشمیر میں دو سال سے لاک ڈائون ہے۔ میانمر (برما) نے لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کر دیا۔ پاکستان کی طرف سے کسی ملک سے تعلقات خراب نہیں ہوئے۔ ایک اور پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے جس کی جانب مولانا فضل الرحمن نے توجہ دلائی ہے کہ سیالکوٹ جیسے واقعات سے ہماری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ انہوں نے تو پی ڈی ایم کے حوالے سے یہ شکوہ کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھی لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایسے واقعات کرائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کو ان پر نظر رکھنی چاہیے اور عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے۔