ویانا (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا نے کہا ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات کے دوران ایران کے بعض تبصروں نے جوہری معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ادھر تہران نے بھی 2015 ء کے معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے سے متعلق واشنگٹن کے ارادوں پر شک کا اظہار کیا ہے۔ خبررساں اداروں کے مطابق امریکا اور ایران دونوں نے ہی 2015 ء کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کو اب بھی توقع ہے کہ اس معاہدے کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے،تاہم ایران کے لیے راستہ بدلنے میں اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے ۔ تہران کی جوہری صلاحیتوں کو روکنے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے بدلے اس معاہدے کو بچایا جاسکتا ہے۔ بلنکن نے کہا کہ بہت جلد ہم یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ آیا ایران واقعی اب نیک نیتی سے بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں آرگنائزیشن فار سیکورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ (او ایس سی ای) کی کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ نے ایران جوہری معاہدے سے متعلق مایوس کن باتیں کہیں۔ ادھر ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم سنجیدہ عزم کے ساتھ ویانا گئے تھے، لیکن اس معاہدے کے حوالے سے امریکا اور 3یورپی فریقوں کی مرضی اور ان کے ارادوں کے بارے میں ہم پر امید نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ جے سی پی او اے کے نام سے معروف 2015 ء کے ایران جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اس کی جوہری سرگرمیاں بند کرنے کے بدلے میں بعض اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم یہ معاہدہ 2018 ء میں اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا کہ جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یک طرفہ طور پر اس سے الگ کر لیا اور ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔اس کے بعد ایران نے بھی اپنی جوہری سرگرمیاں شروع کردیں اور مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے لگا۔اس معاہدے میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ہی یورپی یونین بھی شامل تھے۔اس سے قبل جمعرات کے روز اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیت نے امریکی وزیر خارجہ بلنکن کو فون کر کے فوری طور پر ویانا بات چیت روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ 5ماہ کے وقفے کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ یہ مذاکرات پیر کے روز شروع ہوئے تھے۔ آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والی بات چیت میں امریکا بھی بالواسطہ طور پر شامل ہے ، جس کے چوتھے روز اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بات کہی ۔ ادھر جیوش کرانیکل نامی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس سروس موسادنے اپریل میں نطنز میں سینٹری فیوجز کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کے لیے ایرانی سائنسدانوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ایرانی سائنسدانوں کا خیال تھا کہ وہ بین الاقوامی اپوزیشن گروپوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں موسادایرانی جوہری تنصیب پر بم حملے کے لیے ایرانی سائنسدانوں کی ایک ٹیم کو بھرتی کیا تھا۔لندن سے شائع ہونے والے اخبار نے دعویٰ کیا کہ موساد نے 10 ایرانی سائنسدانوں سے رابطہ کیا اور انہیں اپریل میں وسطی صوبے اصفہان کے علاقے نطنز میں زیر زمین سینٹری فیوجزہال کو تباہ کرنے پر آمادہ کیاتھا۔