گوادر/لاہور(صباح نیوز+نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی کے زیر اہتمام بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد کا ٹرالر مافیا، پینے کے صاف پانی سمیت دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے دھرنا 18ویں روز بھی جاری رہا۔ مظاہرین نے مہران کوسٹل ہائی وے کو چار مختلف مقامات سے بند کردیا ہے۔اس دوران گوادر کو حق دو ریلی کے قائدین نے گوادر میں شٹرڈان ہڑتال کا اعلان کردیا جس کے بعد شہر بھر کی مارکیٹس اور دکانیں بند کردی گئیں۔دوسری جانب ٹریڈ یونینز کے مطالبے کے بعد بلوچستان کے علاقوں اورماڑہ اور پسنی میں بھی شٹر ڈاون ہڑتال کی گئی ہے۔ضلع بھر میں ماہی گیروں نے بھی سمندر کا رخ نہ کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مظاہرین نے عزم کا اظہار کیا کہ احتجاجی تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن کے مطالبات پر من و عن عملدرآد نہ ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔ادھر وزیر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بلوچستان ظہور بلیدی نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ مولانا ہدایت الرحمن اور ان کی ٹیم سے بامعنی مذاکرات ہوئے اور ان کے تمام مطالبات پر پیش رفت کے باعث مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت ہوئی۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ بہت جلد گوادر کے دھرنے پر مثبت نتیجہ ملے گا جو عوام اور بلوچستان کے حق میں ہوگا۔حکومت کی جانب سے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے مزید مہلت مانگنے پر مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ حکومت کو 70 سال سے مہلت دی گئی اب کسی تعطل کے بغیر مطالبات پر عملدرآمد کے سوا حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں رونما ہونے والی پیش رفت کے مد نظر دھرنا کے شرکا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت بلوچستان کی ہدایت پر محکمہ پولیس نے5ہزار اہلکاروں سمیت افسران کو گوادر روانہ کردیا، ان میں ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز شامل ہیں۔علاوہ ازیں ان میں بلوچستان کانسٹیبلری کے 2200اہلکار بھی شامل ہیں جو امن و امان اور ممکنہ کشیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تعینات رہیں گے۔خیال رہے کہ جماعت اسلامی کے مقامی رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں گوادر، تربت، پشکان، زرمان، بلیدا، اورماڑا اور پسنی سے بڑی تعداد میں شہری گوادر کو حقوق دو تحریک میں شامل ہیں۔اس سے قبل ایک نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے کہا تھا کہ جب 2002ء میں گوادر بندرگاہ کا افتتاح کیا گیا اور پھر پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک( شروع ہوا تو گوادر کے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ منصوبوں کو پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ صوبے میں توسیع دی جائے گی۔انہوں نے کہا تھا کہ گوادر میں عوام کے پاس پانی، بجلی، تعلیم، طبی سہولیات یا روزگار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا احترام کیا جارہا ہے، سی پیک کا ایک ذرہ بھی بلوچستان پر خرچ نہیں کیا گیا۔صوبائی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے مطالبات میں پاک-ایران سرحد کے معاملات کی ذمے داری فرنٹیئر کور سے لے کر ضلعی انتظامیہ کو دی گئی ہے۔یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بحری امور کی ایجنسی، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے سمندر میں ٹرالرز کی جانب سے مچھلی کے غیرقانونی شکار کے خلاف اور غیرملکی ٹرالر مافیا کو ضلع گوادر کے پانیوں سے باہر نکالنات اور گوادر سمیت پورے صوبے کے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مشترکہ پیٹرولنگ کریں گے۔ ایکسائز، ٹیکسیشن اور اینٹی نارکوٹکس کے محکمے نے ضلع گوادر میں تمام شراب خانے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور امن و امان کی صورت بگڑنے کے خدشے کے تحت اس پر فوری عمل درآمد کا حکم دیا تھا۔دوسری جانب نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ سے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور گوادر بلوچستان میں مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں جاری دھرنا کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ بلوچستان حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیاقت بلوچ نے مولانا ہدایت الرحمن سے فون پر رابطہ کیا۔ دھرنا کے شرکاء نے کہا کہ وفد آئے جو بااختیار ہو، عوام مسائل کا حل چاہتے ہیں، وزیرِاعلیٰ بلوچستان اگر تربت کے دورہ کے بعد گوادر دھرنا کے شرکاء کے پاس آ جاتے تو مسائل کا حل ہو جاتا۔ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی نے یقین دلایا کہ حکومتی وفد دھرنا کے شرکاء کے پاس جائے گا اور عوامی مسائل حل کے اقدامات کیے جائیں گے۔ لیاقت بلوچ نے واضح کیا کہ حکومت وقت گزاری نہ کرے، عوام کو دھوکا دینے کے بجائے مسائل حل کرے،پاکستان میں آئینی، جمہوری انتخابی عمل، پارلیمنٹ، عدلیہ انتظامیہ موجود ہے لیکن فرنگی غلام ذہنیت، نو آبادیاتی ذہنیت اور آمرانہ جاگیردارانہ طرز سیاست وحکمرانی ترقی اور استحکام کے راستہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جمہوریت، اسلام اور قیامِ پاکستان کے مقاصد سے محبت رکھنے والے عوام کو حق اور باطل کی پہچان کے ساتھ اپنے ووٹ کو طاقتور بنانا ہو گا۔ برادریوں،دھڑوں اور مفادات کے گروہوں میں عوام کو تقسیم کر کے عوام پر ہی عذاب مسلّط کر دیے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی، گوادر اور پورے ملک میں عوامی مسائل کے حل کے لیے ہراول دستہ ہے۔ عوام جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، ملک وملت کو بحرانوں اور انتشاری بدحالی سے نجات دلائیں گے۔ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ سابق حکمران جماعتوں نے حکومت کے بعد اپوزیشن میں رہ کر بھی عوام کو مایوس کیا ہے۔ حکومت ہر محاذ پر ناکام، نااہل اورناقابل اعتماد ہے۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں انتخابی اصلاحات اور بلدیاتی انتخابات کے لئے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں،کے پی کے پی ٹی آئی حکومت بلدیاتی انتخابات کو بے وزن کر رہی ہے، سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو بے جان، بے روح بنانے پر تُلی ہوئی ہے، بلوچستان حکومت کے لیے بلدیاتی اداروں کی کوئی اہمیت نہیں اور پنجاب حکومت آئے روز بلدیاتی نظام تبدیل کرنے، نئی قانون سازی کا بھونڈا کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ تمام حربے بلدیاتی اداروں کو غیر اہم بنانے اور انتخابی التواء کے ہیں۔ بااختیار بلدیاتی نظام اور شفاف وغیر جانبدارانہ انتخابات ملکی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہیں۔