فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو بھی نہیں چھوڑیں گے،چیف جسٹس

267

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نیرریمارکس دیے کہ فوج کی بھی غیر قانونی تعمیرات کو نہیں چھوڑیں گے، ایسا نہ کیا تو باقی غیر قانونی تعمیرات کو کیسے گرائیں گے؟ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جا سکتا، کنٹونمنٹ کی زمین دفاعی مقاصد پورے ہونے پر حکومت کو واپس کرنی ہوتی ہے، کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروا رہے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، فوج جن قوانین کا سہارا لے کر کمرشل سرگرمیاں کرتی ہے وہ غیرآئینی ہیں، اٹارنی جنرل صاحب فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ میاں ہلال عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت عظمی نے سیکرٹری دفاع کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی، جبکہ سیکرٹری دفاع کو 4ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔اٹارنی جنرل کی استدعا پر عدالت نے رپورٹ واپس لینے کی اجازت دے دی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کار ساز میں بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر کے سروس روڈ بھی اندر کر دیے گئے، کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال اب تک برقرار ہیں، کالا پل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں، کار ساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں بنا دی گئی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل بیس پر اسکول، شادی ہال بھی بنے ہوئے ہیں، کوئی بھی شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ رہا ہوگا، کہا جا رہا ہے کہ مسرور اور کورنگی ائر بیسز بند کیے جا رہے ہیں، ائر بیس بند کرکے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کریںگے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ حکومت کی زمین ہے، اٹارنی جنرل بتائیں وزارتِ دفاع کیسے اس استعمال کو دفاع تک محدود رکھے گی، پورے پاکستان میں کنٹونمنٹ بورڈ کی اراضی پر یہ سلسلہ جاری ہے، سی ایس ڈی کو بھی اب اوپن کمرشل ڈپارٹمنٹل اسٹور بنا دیا گیا ہے، کراچی میںگِزری روڈ پر راتوں رات بلڈنگ کھڑی کر دی گئی، ہم ابھی سو کر نہیں اٹھے تھے کہ انہوں نے بلڈنگ کھڑی کر دی۔ ایک ریٹائرڈ میجر گلوبل مارکی کے لیے زمین کیسے لیز پر دے سکتا ہے؟ ریٹائرڈ میجر کا کیا اختیار ہے کہ دفاعی زمین لیز پر دے سکے، فوج نے اس میجر کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، گلوبل مارکی سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جا رہے ہیں۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے، اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں، سمجھ نہیں آ رہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی۔چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع سے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں آپ کا آگے کا کیا منصوبہ ہے؟سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ میاں ہلال نے جواب دیا کہ تینوں سروسز کی کمیٹی بنا دی ہے جو غیر قانونی عمارتوں کی نشاندہی کرے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ سمجھ نہیں آتا فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ فوجی سرگرمیوں کے لیے گیریژن اور رہائش کے لیے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں، سی ایس ڈی پہلے صرف فوج کے لیے تھا اب وہاں ہر فرد جا رہا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ سیکرٹری دفاع کو کہیں کہ جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ درست نہیں، رپورٹ میں لکھا ہے کہ بلڈنگز گرا دی ہیں جبکہ وہاں بلڈنگز کھڑی ہیں۔سیکرٹری دفاع نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ سر میں موقع پر جا کر تصاویر بنا کر نئی رپورٹ مرتب کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے اور آرمی دونوں کے لیے یہ صورتحال باعث شرمندگی ہے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ہم یہ رپورٹ واپس لیتے ہیں۔عدالت عظمیٰ نے ہدایت دی کہ جامع رپورٹ داخل کریں کہ کنٹونمنٹ کی کون سی زمین کن مقاصد کے لیے ہے، قانون کے مطابق اسٹریٹجک لینڈ صرف ڈیفنس مقاصد کے لیے استعمال ہو گی،چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری صاحب آپ خود بھی جنرل رہے ہیں، آپ کو تو پتا ہو گایہ قانون کہ ا گر دفاع کے لیے زمین استعمال نہیں ہو رہی تو یہ زمین واپس حکومت کے پاس جائے گی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سیکرٹری صاحب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمرشل استعمال ڈیفنس مقاصد ہیں تو پھر ڈیفنس کس کو کہتے ہیں؟ سیکرٹری صاحب آپ کے آرمی آفیشلز نے زمین خریدی اور بیچ کر چلے گئے، پھر یہ زمین 10 ہاتھ آگے بکی، آپ اسے کیسے واپس لیں گے؟