روس نے رواں ماہ کے شروع میں اپنے سٹیلائٹس اسٹیشن کو خلا میں زمین سے میزائل مار کرتباہ کر دیا، روس نے 1982ء میں اس سٹیلائٹس اسٹیشن کو خلا میں بھیجا تھا۔ روسی میزائل جس پر امریکا سمیت پورا یورپ حیران اور خوف سے دو چار ہوگیا اور اس کے بعد ایک طوفان کھڑا ہوگیا جس کے فوری بعد چین سے دنیا کے سامنے یہ خبر آئی کہ چین کا سپُر سونک میزائل ساری دنیا میں کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت سگنل کے موصول ہوتے ہی پہنچ جائے گا۔ عالمی اخبارات کے مطابق یہ خبر چین نے از خود لیک کی ہے تاکہ اس کے دشمنوں کو پتا چلے کہ چین کا سپُر میزائل کس قدر خطرناک ہے۔ لیکن چین نے ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق‘‘ ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ’’اس نے جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے، آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز میزائل کا چند مہینے قبل تجربہ کیا ہے لیکن اس نے اس بات تصدیق کی ہے یہ خلائی جہاز کا ایک معمول کا تجربہ تھا۔ بین الاقوامی جریدے فائنانشل ٹائمز کے مطابق امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں اس خبر سے تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی جہاں امریکا کے خفیہ اداروں کو اس بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاو لیجان نے ذرائع ابلاغ کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس سال جولائی میں ایک معمول کا تجربہ کیا گیا تھا جس میں مختلف قسم کی دوبارہ قابل استعمال خلائی ٹیکنالوجی کو جانچا گیا تھا۔ فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کہ کیا یہ رپورٹ درست نہیں ہے تو انہوں نے کہا ہاں لیکن چینی ترجمان نے رپورٹ کو غلط نہیں کہا۔ رپورٹ میں چار ذرائع کا نام ظاہر کیے بغیر حوالہ دیا گیا تھا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہائپرسونک میزائل کو گرمیوں میں داغا گیا تھا۔ یہ میزائل خلائی مدار میں چکر لگا کر زمین کی طرف آیا اور وہ اپنے ہدف سے معمولی سی دوری پر ٹکرایا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس ٹیسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے اس شعبے میں حیران کن ترقی کی ہے جو امریکی حکام کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اُدھر امریکانے روس پر ایک‘ خطرناک اور غیر ذمے دارانہ میزائل ٹیسٹ کرنے کے حوالے سے تنقید کی ہے اور امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس ٹیسٹ سے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر موجود عملہ خطرے میں تھا۔ اس ٹیسٹ میں روس نے اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کو تباہ کیا تاہم اس کے تباہ شدہ ٹکڑوں کی وجہ سے آئی ایس ایس کے عملے کو کیپسولز میں پناہ لینی پڑی۔ آئی ایس ایس کے عملے میں اس وقت سات اراکین ہیں جن میں چار امریکی، دو جرمن، اور دو روسی خلا باز ہیں۔ آئی ایس ایس زمین سے تقریباً 420 کلومیٹر کی اونچائی پر کرہِ ارض کے مدار میں ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بریفنگ میں کہا کہ آج روسی فیڈریشن نے لاپروائی کے ساتھ ایک براہِ راست اینٹی سیٹلائٹ میزائل کا ٹیسٹ کیا اور اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کو تباہ کیا۔ اس ٹیسٹ سے اب تک 1500 ٹکرے مدار میں آ چکے ہیں جو تمام ممالک کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں ان میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ فائنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ناسا کے منتظم بل نیلسن کا کہنا تھا کہ روس کی انسانوں کی خلائی پروازوں کی طویل تاریخ کے پس منظر میں یہ انتہائی حیران کن ہے کہ روس نہ صرف امریکی بلکہ اپنے خلا بازوں کو بھی خطرے میں ڈالے گا یا چین کے خلائی اسٹیشن میں موجود عملے کو خطرے میں ڈالے گا۔
ادھر روسی میڈیا تاس کا کہنا ہے کہ خلائی ایجنسی نے اس واقعے کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ ایجنسی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا یہ ٹکڑا آئی ایس ایس کے قریب سے تو گزر گیا تاہم اب اس بات پر غور ہے کہ یہ کہاں سے آیا تھا۔ بظاہر یہ تباہ شدہ روسی سیٹلائٹ کوسموس 1408 کا ٹکڑا ہے جو ایک جاسوس سیٹلائٹ تھی، جسے 1982 میں لانچ کی گئی تھی اور کئی برسوں سے کام نہیں کر رہی تھی۔ لیو لیبز نامی کمپنی جو خلا میں ٹکڑوں کو ٹریک کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ ان کے نیوزی لینڈ میں ریڈار نے اس مقام پر جہاں یہ پرانی ناکارہ سیٹلائٹ ہونی چاہیے تھی، متعدد ٹکرے دیکھے ہیں۔ امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ روسی اقدامات یہ واضح کرتے ہیں خلا کو ہتھیاروں سے پاک رکھنے کے روسی دعوے منافقانہ اور غیر سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس غیر ذمے دارانہ اقدام کا جواب دے گا۔ ادھر برطانیہ کے وزیر ِ دفاع بن والس نے کہا ہے کہ یہ ٹیسٹ خلا میں سیکورٹی، تحفظ اور استحکام کے سلسلے میں خوف کے احساس کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹیسٹ سے تباہ شدہ ٹکرے کئی برسوں تک مدار میں رہیں گے اور سیٹلائٹس اور انسانوں کے خلا میں سفر کے لیے خطرہ رہیں گے۔
لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہوگی کہ متعدد ممالک کے پاس زمین سے خلا میں پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے جن میں امریکا، روس، چین اور بھارت شامل ہیں۔ میزائلوں کی ٹیسٹنگ کبھی کبھی ہی کی جاتی ہے تاہم جب بھی ایسا کیا جاتا ہے تو اس پر بڑے پیمانے پر تنقید ہوتی ہے کیونکہ اس سے سب لوگوں کے لیے خلا میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ چند خلا بازوں کے لیے پوری دنیا حیران اور پریشان نظر آرہی ہے لیکن دنیا میں انسانوں پر بم بر سانے والوں پر اگر اسی شدت سے تنقید کی جاتی تو آج دنیا میں میزائلوں دور ختم ہو جاتا۔
2007 جب میں چین نے اپنے ایک سیٹلائٹ کو تباہ کیا تھا تو اس کی وجہ سے 2000 ایسے ٹکرے پیدا ہوئے تھے جنہیں ٹریک کیا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے چین کے اپنے سمیت دیگر جاری اسپیس مشن کو خطرے میں ڈالا تھا۔ خلائی حالات سے آگاہی کے ماہر برائن ویڈن نے اس سے قبل کہا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ روس نے ایک ایسا اقدام کیا ہے جس سے آئی ایس ایس کو خطرہ تھا تو یہ انتہائی غیر ذمے دارانہ ہوتا تھا۔ عموماً خلائی اسٹیشن کے مدار میں دیگر آپریٹر اپنا ہارڈ ویئر جانے نہیں دیتے، چاہے وہ ایکٹیو ہو یا ناکارہ کر دیا گیا ہو تاہم وقت کے ساتھ ساتھ خلا بازوں کو زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں کیونکہ پرانے سیٹلائٹ اور راکٹوں کے ٹکڑے اس اسپیس اسٹیشن کے انتہائی قریب سے گزرنے لگے ہیں۔ جس رفتار پر یہ ٹکڑے سفر کر رہے ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ باآسانی خلائی اسٹیشن کی دیواروں کو پھاڑ سکتے ہیں۔ حفاظتی اقدامات میں عموماً خلابازوں کو مختلف موڈیولز بند کر کے کیپسولز میں جانا پڑتا ہے تاکہ کسی بڑے حادثے کی صورت میں زمین پر بحفاظت لوٹ سکیں۔ یہی تو انسانوں کی مجبوری ہے کہ اُس نے پرندوں سے ہواؤں میں تیرنا تو سیکھ لیا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اگر کوئی پرندہ زمین پر تھک کر گر جائے تو بلند سے بلند پرواز کو مختصر کر کے اپنے مصیبت میں پھنسے پرندے کو مصیبت سے آزاد کرانے پہنچ جاتا ہے یہ نہیں کرتا کہ وہاں سے میزائل داغنا شروع کردے اور مرے پر درے کی بارش کردے۔ کاش انسان بھی ان سے کچھ سیکھ لے۔