گوادر/کوئٹہ(نمائندہ جسارت)بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں ہزاروں خواتین گوادر کو حق تحریک کیلیے سڑکوں پر نکل آئیں‘ مولانا ہدایت الرحمن کی تحریک کا ساتھ دینے کا عزم‘ ہزاروں خواتین کا شیر خوار بچوں کے ساتھ تین کلو میٹر سے زاید پیدل مارچ‘ ریلی میرین ڈرائیورپر ہی جی ڈی اے پارک کے قریب جلسے میں تبدیل ہوگئی‘ مبصرین نے ریلی کو بلوچستان کی تاریخ میں خواتین کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع قرار دیا ہے۔ احتجاجی ریلی کا اہتمام ‘گوادر کو حق دو تحریک’ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمن کی زیر قیادت اس تحریک کی جانب سے گوادر میں گزشتہ 15 دنوں سے احتجاجی دھرنا بھی دیا جارہا ہے۔پیر کی سہ پہر گوادر کے میرین ڈرائیو سے خواتین کی احتجاجی ریلی کا آغاز ہوا۔ خواتین کی اکثریت نے نقاب اور برقعے پہن رکھے تھے اور ان میں سے کئی خواتین کے ہمراہ دودھ پیتے بچے بھی تھے۔ تقریباً تین کلومیٹر پیدل مارچ کے بعد میرین ڈرائیور پر ہی جی ڈی اے پارک کے قریب ریلی جلسے میں تبدیل ہوگئی۔گوادر کے مقامی صحافی نور محسن کے مطابق ریلی اور جلسے میں ہر عمر کی خواتین شریک تھیں اور صرف خواتین کے جلسے اور ریلی کی بات کی جائے تو تعداد کے لحاظ سے یہ گوادر اور مکران ڈویژن ہی نہیں بلوچستان کی تاریخ کا بڑا اجتماع تھا۔گوادر کے صحافی صداقت بلوچ نے بھی خواتین کی ریلی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے انہوں نے کبھی اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو سڑکوں پر نہیں دیکھا۔مولانا ہدایت الرحمان کے علاوہ عام خواتین اور طالبات نے بھی اس اجتماع سے خطاب کیا اور کہا کہ ’بلوچ معاشرے میں خواتین کا گھروں سے یوں نکل کر سڑکوں پر احتجاج کرنا بہت بڑی بات ہے۔ خواتین پانی کی قلت، بے روزگاری، گھروں میں پڑنے والے فاقوں اور بنیادی سہولیات کے فقدان سے مجبور ہوکر میدان میں نکلی ہیں۔خواتین کا کہنا تھا کہ گوادر ہی نہیں پورے بلوچستان میں ایسی کوئی صنعت یا کارخانہ نہیں جہاں 100 لوگ کام کرسکیں۔ روزگار کے ذرائع صرف سمندر اور سرحد ہیں، پاک ایران سرحد پر مقامی لوگوں کو تجارت کی اجازت نہیں دی جارہی جس سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’پابندی کے باوجود متعلقہ حکام کی غفلت سے بڑی کشتیوں کے ذریعے ممنوعہ جالوں کے ذریعے مچھلیوں کا بڑے پیمانے پر غیر قانونی شکار کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے سمندر بانجھ ہوگیا ہے اور مچھلیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔خواتین نے بڑی کشتیوں کے ذریعے مچھلی کے غیر قانونی شکار پر پابندی پر عملدرآمد اور سرحدی تجارت میں حائل رکاوٹیں دور کرکے آزادانہ تجارت کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ شہروں کے اندر غیر ضروری چیک پوسٹوں اورمقامی لوگوں کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔ چیک پوسٹیں صرف داخلی راستوں پر قائم کی جائیں۔خواتین کا کہنا تھا کہ اپنے حقوق کے لیے جاری مزاحمت میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ رہیں گی۔مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ’خواتین ہمارے معاشرے کا اہم جزو ہیں اس لیے ہم نے ان کو بھی اپنی جدوجہد میں شامل کیا ہے‘ ان کی شمولیت سے ہماری تحریک مزید مضبوط ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین کی تاریخی ریلی بلوچستان میں حقوق کی فراہمی کے نئے دور کا آغازکرے گی۔ کوئٹہ اور اسلام آباد میں اہل اقتدار نے دیکھ لیا ہے کہ گوادر کا بچہ بچہ خواتین، بزرگ نوجوان سب پرامن جدوجہد کے ذریعے اپنے حق کے حصول کے لیے پر عزم ہے۔ گوادر کی اآواز سننے اور بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے علاوہ اب حکمرانوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔گوادر سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ناصر رحیم سہرابی کے مطابق بلوچستان میں حکومت نے دھرنوں، جلسے جلوس پر پابندی عائد کر رکھی ہے، موجودہ حالات میں مردوں کا نکلنا بھی اہم بات سمجھی جاتی ہے ایسے میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا نکلنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسائل صرف ایک طبقے کے نہیں بلکہ سب لوگوں کے ہیں اور اس سے امیر غریب اور متوسط طبقے سمیت سب متاثر ہیں۔