پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک بڑی قانون سازی عمل میں آئی ہے، اور بائی ہْک آر کرْوک، حکومت کامیاب قرار پائی ہے۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سمیت 33 بل منظور کرلیے گئے، حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں اس کو اپنی ایک بڑی کامیابی اور جیت قرار دے رہی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس سارے عمل پر تنقید اور احتجاج کررہی ہیں۔ پہلے ہم اس بنیادی نقطے کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا صرف الیکٹرونک ووٹ مشین کے استعمال سے پورا انتخابی عمل شفاف ہوجائے گا اور ہر ایک فرد یا سیاسی جماعت پولنگ کے عمل اور ووٹوں کی گنتی کے عمل سے مطمئن ہوجائے گی، جیسا کہ وزراء بیان کررہے ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ملک کے فہمیدہ حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن کو انتخابی، انتظامی اور تقرر و تبادلوں کے مکمل اختیارات نہیں مل جاتے، مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ بھارت کی مثال لیجیے وہاں کا الیکشن کمیشن پوری طرح بااختیار ہے، اور وہ مسلسل سات دہائیوں سے کامیابی اور تندہی سے انتخابات منعقد کراتا چلا آرہا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن کے ہاتھ، پائوں آئینی ترمیم اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے باندھ دیے جاتے ہیں۔
الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں الیکشن کمیشن پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے ای وی ایم کے استعمال کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 37 نکات تحریری شکل میں پارلیمانی امور کے بارے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتائے ہیں۔ بعض حلقے تشویش ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر انتخابی اصلاحات لانا چاہ رہی ہے جو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ہی اس کو متنازع بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ الیکٹرونک ووٹنگ کے عمل اور اس پر اعتراضات کو اگر ماہرین کی ٹیم کے سامنے رکھ کر ان کی رائے عوام کے سامنے رکھا جاتا تو کم از کم یہ معلوم ہوسکتا تھا کہ تکنیکی طور پر اس کے کیا فوائد و نقصانات ہیں اور یہ کس حد تک قابل اعتماد نظام ہے۔ اس میں وہ خامیاں جن کا تذکرہ ہورہا ہے، قابل اصلاح ہیں یا نہیں، اعتراضات درست ہیں یا غلط، اس بارے میں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا ہے جس میں اس امر کا تعین مشکل ہے کہ کس کا موقف کس حد تک درست ہے اور کس کا کتنا غلط ہے۔ الیکٹرونک ووٹنگ کو اگر سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے تکنیکی پہلوئوں پر بات کی جائے تو یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان اس معاملے پر اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اب واپسی ناممکن لگتی ہے جبکہ حکومت اور الیکشن کمیشن بھی مدمقابل ہیں۔ بجائے اس کے کہ الیکشن کمیشن کے تحفظات کا تکنیکی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے اور حزبِ اختلاف کو قائل کیا جاتا لیکن حکومت نے سادہ اکثریت سے بل منظور کراکے اپنی من مانی کی ہے۔ جس طرح ملکی سیاست میں تلخی بڑھتی جارہی ہے اور سیاسی اختلافات ذاتی اختلافات میں تبدیل ہورہے ہیں، تو ایسے حالات میں متفقہ انتخابی اصلاحات لے کر آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ وزراء کی جانب سے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات لگانے کے بجائے، اس کا احسن طریقہ یہ تھا کہ الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس کا نکتہ وار جواب دے دیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔ الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ مشین کے ذریعے ووٹر کی شناخت خفیہ نہیں رہے گی اور نہ یہ بات خفیہ رہے گی کہ ووٹر نے ووٹ کس امیدوار کو دیا۔ اب اس کا جواب تو یہ ہونا چاہیے کہ کس طرح اس امر کا اہتمام کیا جائے گا کہ دونوں باتیں خفیہ رہ سکیں۔ اس کا یہ جواب تو نہیں بنتا کہ یہ مشین جعلی بیلٹ پیپر والوں کے لیے بری خبر ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے دوسرے اعتراضات کا جواب بھی ملنا چاہیے۔ قومی اداروں کو متنازع بنانے کا عمل خطرناک ہے۔ عدلیہ اور پارلیمان تک اس سے محفوظ نہیں، سیاستدانوں کو تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اداروں کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور یہی ذمے داری اداروں کی بھی ہے کہ وہ اپنے آئینی اور قانونی مینڈیٹ کی حد پار نہ کریں، اسی میں آئینی اداروں کا احترام پوشیدہ ہے۔
انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں لیکن ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنے اور ملک میں عوام کی رائے کے مطابق حکومت قائم ہو جس پر انگلی اُٹھانے کی نوبت نہ آئے۔ اداروں کو ذاتی اور جماعتی مفادات کے تابع رکھنے کی کوشش کے بجائے حقیقی معنوں میں قومی مقاصد اور ملکی آئین کے تابع کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی نیّتوں کی تطہیر کرنا ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی ورکنگ کو محض انتخابی ذمے داری نہیں بلکہ انتظامی ذمے داری کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل بیوروکریٹس کے ہاتھ میں دینا ضروری ہے کیونکہ انتخاب منعقد کرانا عدالتی نہیں انتظامی کام ہے۔
بھارت میں بھی سابق اعلیٰ افسران کو الیکشن کرانے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے اور یہی اس کے ارکان کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں الیکشن کمیشن کے پاس کلی اختیارات نہیں ہوتے۔ ڈپٹی کمشنر، پولیس، رینجرز سب حکومتی مشینری کے ماتحت ہوتے ہیں۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر جو کچھ ہوتا ہے، الیکشن کمیشن کا کوئی اختیار نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ دھاندلی شکایات تواتر سے وسیع پیمانے پر سامنے آتی ہیں۔ اگر واقعی ہم ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں تو الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا ضروری ہے۔ الیکشن کمیشن کو آزادانہ کام کا موقع دے کر جمہوریت پر عوام، سیاسی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ، الیکشن کمیشن کو ایک انتہائی باوقار آئینی ادارے کے طور پر قبول کرنے کے لیے دل بڑا کریں، اسی راستے سے الیکشن کمیشن کی توقیر بڑھ سکتی ہے اور جمہوریت کا پودا مفادات کے گملوں سے نکل کر زمین میں جڑیں پوست کرکے تناور درخت بن سکے گا۔