کراچی(اسٹاف رپورٹر)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ آدھا کراچی زیرقبضہ ہے اور پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے۔جمعرات کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں سرکاری زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے استفسار کیا کتنی سرکاری زمین واگزار کرائی؟ عدالت نے اطمینان بخش جواب نہ دینے پر سینئر ممبر کی سرزنش کردی۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلو،آدھے سے زیادہ سندھ کی سرکاری زمینوں پر قبضہ ہے ،وہ نظر نہیں آتی؟ کونے کونے کی تصویریں لگا کر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہو؟ منشی ہو؟ بابو ہو؟ کلرک ہو؟ کیا ہو تم؟ سینئر ممبر بنو۔ کمیٹی کی کہانیاں ہمیں مت سناؤ، قبضہ ختم کراؤ جاکر۔ اینٹی انکروچمنٹ عدالتیں بھی کچھ نہیں کررہیں سکھر جیسے شہر میں ایک کیس ہے صرف۔سینئر ممبر نے بتایا ہم کوشش کررہے ہیں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حیدرآباد میں کوہی تجاوزات نہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور بے نظیر آباد میں کوئی کیس نہیں۔ پورے کراچی پر قبضہ ہے اور صرف 9کیسز ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا حیدر آباد انکروچڈ ہے، آدھا کراچی قبضہ ہوا ہے، ملیر چلے جائیں ، گلستان جوہر ، یونیورسٹی روڈ سب دیکھ لیں ، یہ جو 15 اور بیس بیس منزلہ عمارتیں بن گئیں کیا قانونی ہیں ؟ سب غیر قانونی ہے ، سب ریونیو کی ملی بھگت سے بنی ہیں اور جعلی کاغذات پر بنائی گئی ہیں، یہ لوگ قبضہ کراتے ہیں بھتہ لیتے ہیں۔جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ مافیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ؟ ان کا تحفظ کررہے ہیں ؟ آپ شکایت کیوں نہیں بھیجتے ؟ کیا مفادات ہیں آپ کے ؟۔ سینئر ممبر نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کررہے ہیں ، کورنگی میں قبضے کے خلاف کارروائی بھی شروع کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو آپ کہیں گے عدالت عظمیٰ کا حکم ہے لہٰذا زیادہ ریٹ ہوں گے، اب تو وہاں ریٹ بڑھ گئے ہوں گے آپ کے۔جسٹس گلزار نے کہا کہ کراچی کے گرد و نواح میں جائیں دیکھیں سب غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں،جو نام نہاد موٹر وے بنایا ہے وہاں سب قبضہ ہے ، ائرپورٹ کے ساتھ بھی یہ زمینیں نظر نہیں آتیں ، غیرقانونی ہے؟ آپ حکم پر عمل درآمد کریں ورنہ توہین عدالت کا کیس چلے گا اور جیل جائیں گے ، آپ کا کام عملی نظر آنا چاہیے۔عدالت نے سندھ بھر میں سرکاری زمینوں سے قبضہ ختم کرانے اور سینئر ممبر کو ایک ماہ میں جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈینسو ہال پر تاریخی عمارت میں غیر قانونی تعمیرات کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹر کے موبائل پر تصویر دکھ کر سیکرٹری کلچر کی کو جھاڑ پلا دی۔ عدالت نے ایک ماہ میں غیر قانونی تعمیرات گرانے اور سیکرٹری کلچر کو فوری کارروائی کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ہندو جیم خانہ کی عمارت ناپا سے خالی کرانے سے متعلق کیس میں ایک ماہ میں سندھ حکومت سے ناپا کو متبادل جگہ دینے سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔عدالت میں نسلہ ٹاور، تجوری ہائٹس گرانے سے متعلق کمشنر کراچی نے نسلہ ٹاور، تجوری ہائٹس سے متعلق رپورٹس جمع کرادی۔ کمشنر کراچی نے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر من و عن عمل شروع کردیا۔ نسلہ ٹاور کو تیزی سے گرانے کا کام جاری ہے۔ تجوری ہائٹس گرانے پر بھی کام جاری ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کمشنر کراچی رپورٹس پر جائزہ لیے جانے کا امکان ہے۔کمشنر کراچی نے نسلہ ٹاور انہدام کے لیے 50روز کی مہلت طلب کی ہے.علاوہ ازیں تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکت کے کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں سیکرٹری صحت ذوالفقار شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس گلزار حمد نے تھر میں صحت کی عدم سہولیات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھر میں سب اللہ کے سہارے ہیں اور لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔عدالت نے سیکرٹری صحت کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ آپ نے تھر دیکھا ہے، مٹھی دیکھا ہے ڈیپلو دیکھا ہے؟ وہاں کچھ نہیں ہے سب اللّہ کے سہارے ہیں، وہاں اسپتال صرف کاغذوں میں بن رہے ہیں، ادویات کی خریداری جاری ہے مگر ہے نہیں، وہاں لاکھوں مسائل ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تھر کے لوگوں اور حکومت کے درمیان مکمل ڈس کنیکشن ہے، سارے منسٹر مہنگے اسپتالوں سے علاج کراتے ہیں، سارے منسٹر سرکاری اسپتالوں میں علاج نہیں کراتے، بچے مرجاتے ہیں کسی کوپرواہ نہیں، جو بھی رپورٹ آتی ہے تو کہتے ہیں یو این نے یہ کہا یو این نے وہ کہا، وہ یوکے میں بیٹھ کر رپورٹ بناتے ہیں آپ لوگ کیا کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے مکالمہ کیا کہ آپ سب سرکاری افسران جائیں تھرپارکر کے سرکاری اسپتال میں علاج کرائیں، یہاں سے چار پانچ گھنٹے کا راستہ ہے جس کی قسمت میں ہوگا بچ جائے گا، ہم سب کا آرڈر کردیں گے تمام سیکرٹریز تھر میں علاج کرائیں، سندھ کے کسی بھی شہر چلے جائیں،لاڑکانہ، میر پورخاص یا حیدر آباد چلے جائیں۔جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ لوگوں کو تھرمیں جانوروں کے طرح مرنے کے لیے چھوڑدیا ہے، اسپتالوں میں گدھے بندھے ہوئے ہیں، لائٹ تک نہیں ہے، دوائی، ایکسرے مشین وغیرہ کی سہولیات تو خواب ہیں، پینے کاوہاں پانی نہیں ہے،اربوں روپے کے آراو پلانٹس لگا دیے سب فیل۔عدالت عظمیٰ نے تھر پارکر میں سہولیات سے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے غیر حاضر، غیر فعال ڈاکٹرز اور عملے کے خلاف کارروائی کرنے اور سول اسپتال مٹھی کو تمام تر سہولیات فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔قبل ازیں پی ای سی ایچ ایس میں غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک لوگوں کو بلیک میل کرکے چلائی جارہی ہے۔وکیل پی ای سی ایچ ایس نے بتایا کہ کے الیکٹرک کو معمولی قیمت پر زمین دی۔عدالت نے پی ای سی ایچ ایس کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ محمود آباد میں گرین بیلٹ کی جگہ تھی وہ بھی کے ای ایس سی کو دے دی ، کے الیکٹرک تو مہنگی زمین بھی خرید سکتی ہے اسے رفاہی پلاٹ دے دیا۔چیف جسٹس نے وکیل کے الیکٹرک سے کہا کہ کے الیکٹرک بجلی کی معمولی قیمت لیتی ہے ؟ وہ صرف پیسہ بنا رہے ہیں ، کے الیکٹرک کا قومی مفاد سے کیا تعلق ؟ آپ کو گرین بیلٹ سے گرڈ اسٹیشن ہٹانا پڑے گا ، آپ جتنے گرڈ اسٹیشن بنا دیں ، پورے شہر میں لوڈ شیڈنگ ہے ، لوگوں کو دو تین گھنٹے ہی بجلی ملتی ہے کیا سروس دے رہے ہیں آپ لوگوں کو ؟ جہاں گرڈ اسٹیشن لگایا ہوا ہے محمود آباد میں کتنی دیر بجلی آتی ہے ؟۔چیف جسٹس نے وکیل کے الیکٹرک سے کہا کہ نیشنل گرڈ سے آپ کا معاہدہ ختم ہوگیا، گیس کے آپ لوگ پیسے نہیں دیتے، کے الیکٹرک لوگوں کو پریشان اور بلیک میل کرتی ہے، یہ نجی ادارہ ہے لوگوں کو ناک کان سے پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے، کے الیکٹرک نے معاہدے کے تحت ایک واٹ کا بھی اضافہ نہیں کیا،نجی اداروں کے پاس تو یہ سروس ہونی ہی نہیں چاہیے ، اجارہ داری بنائی ہوئی ہے ، انہوں نے تانبا بیچ کر اربوں کھربوں روپے بنالیے ، المیونیم کی تاریں لگا دیں تباہ کردیا سسٹم سارا ، سب سے پہلے شہر کی تاریں بدل دیں ، جہاں بجلی چوری ہوتی ہے وہ دوسروں کے بلوں میں ڈال دیتے ہیں ، آپ کا کام صرف پیسہ ہے ، منی منی اور منی بس ، بورڈ آف ڈائریکٹر کہتے ہیں پیسہ کیسے کمانا ہے بس ، ابھی تو یہی نہیں معلوم اس کے پیچھے کون ہے ، کون اصل میں چلارہا ہے کے الیکٹرک ، ہمیں اس پر بھی حیرت نہیں ہوگی اس کا تعلق ایسے ملک سے ہو جس سے ہمارا باقاعدہ ریلیشن ہی نہیں۔عدالت نے کے الیکٹرک کو جواب کے لیے ایک دن کی مہلت دے دی۔