سپریم کورٹ نے تھر پار میں سہولیات سے متعلق رپورٹ مسترد کرتے ہوئے غیر حاضر، غیر فعال ڈاکٹرز اور عملے کیخلاف کارروائی کرنے اور سول اسپتال مٹھی کو تمام ترسہولیات فراہم کرنے کا حکم دیدیا۔جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے تھرپارکر میں غذائی قلت سے بچوں کی ہلاکتوں سے متعلق سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے خود سول اسپتال مٹھی کا دورہ کیاکوئی سہولت نہیں تھی، آپریشن تھیٹر مارچری لگ رہا تھا۔ ڈاکٹرز بھی نہیں تھے ایک ڈاکٹر تھا جس نے کہاکہ رات کو بتایا گیا ہے کل آجانا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت برا حال ہے وہاں، اللہ کے سہارے پڑے ہیں لوگ بجلی بھی دو گھنٹے کیلئے آتی ہے پانی کیلئے بارش کا انتظار کرتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آر او پلانٹس پر کروڑوں روپے لگادیئے سب خراب ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف بھرتیاں ہورہی ہیں وہاں کوئی کام کرنے والا نہیں۔ دس پندرہ ہزار صحت کا عملہ ہوگا مگر کوئی نظر نہیں آتا ، وہ لوگ آپ کی اولاد نہیں آپ کے والد والدہ نہیں اس لیے آپ کو فکر ہی نہیں ، یہ تو اس علاقے سے مکمل لاتعلقی ہے، سیکرٹری صحت سندھ نے کہا کہ نئے ڈاکٹرز کی بھرتیوں کا عمل جاری ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے وی آئی پیز جاتے ہیں ان کا کچھ اور طریقہ کار ہوتا ہے ، غریبوں کا برا حال کردیتے ہیں انجکشن لے آئو دوا لے آئو ، بیٹھنے کی جگہ تک نہیں ہے ، ایس آئی یو ٹی دیکھیں جاکر کیسے کام ہوتا ہے ، ڈیڈیکیشن ہے ڈیڈیکیشن ، یہ ہوتا ہے کام ، آپ کے منسٹرز تو آغا خان سے علاج کراتے ہیں انہیں کیا پرواہ ، برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کے اسپتال تو اسطبل بنے ہوئے ہیں گھوڑے ہوتے ہی وہاں ، آپ کی ہر رپورٹ میں یو این یو این لکھا ہے ، آپ کیا کررہے ہیں ہر جگہ لکھ دیا یو این نے کہا ہے ، یو این سے پیسے لیتے ہیں تو ان ہی کی بات کریں گے ، فیصل صدیقی عدالتی معاون نے بتایا کہ تھر میں 2018 میں 400 بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں ، کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کچھ نہیں ہورہا ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ انہیں انسان نہیں سمجھتے ؟ ہم آرڈر کردیتے ہیں کسی بڑی آدمی کا سرکاری افسر کا نجی اسپتال میں علاج نہ ہو ، سیکرٹری لیول کے جتنے افسران ہیں سب مٹھی سول اسپتال جائیں علاج کیلئے ، چار پانچ گھنٹے لگیں گے کوئی بچ جائے تو بچ جائے ، لاڑکانہ ، سکھر کسی بھی شہر میں چلے جائیں سرکاری اسپتالوں کا یہی حال ہے ، آپ کو پرواہ نہیں بچے مررہے ہیں ، ہزاروں لاکھوں لیڈی ہیلتھ ورکرز رکھے ہیں کہاں ہیں ؟ ان کے گھروں میں جاکر انہیں رہنمائی دینی چاہیے ، اتنی بڑی فوج بنائی ہوئی ہے ہیلتھ کی کہاں ہے وہ ؟؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میڈیکل افسران کی 75 فیصد اسامیاں خالی ہیں وہاں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو مطلب معلوم ہے 75 فیصد کا ؟ جو وہاں بھرتی ہوتاہے وہ وہاں سے ٹرانسفر کرالیتا ہے ، سیکرٹری صاحب آپ کو وہاں جاکر رہنا پڑے گا ، آپ سے پہلے والوں نے بھی کچھ نہیں آپ کے بعد والے بھی انشااللہ کچھ نہیں کریں گے ، آپ نے مائوں اور بچوں کو مرنے دیا ، یہ سب آپ کے کھاتے میں لکھا جارہا ہے آپ بری الذمہ نہیں ہیں ، ایک ہلاکت کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سول اسپتال مٹھی میں اتنی اسامیاں بھری ہوئی ہیں اور وہاں ایک ڈاکٹر تھا وہ بھی رات کو آیا تھا ، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایک چیز ہماری بکی ہوئی ہے ، اسپتالوں میں جائیں گدھے بندھے ہوئے ہیں ، دوائیں ، ایکسرے مشین وغیرہ تو خراب ہے وہاں ، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ ڈائیلاسز ٹیکنیشنز کی بھی اسامی فل ہے مگر وہاں کوئی نہیں ہوتا ، چیف جسٹس نے کہا کہ پینے کا پانی تک کا بندو بست نہیں ہے وہاں ، اربوں روپے لگادیئے آر او پلانٹس پر مگر سب جعلی ، عدالت نے سیکرٹری صحت کو بولنے سے روک دیا آپ ہمیں وہ بتائیں جو ہمیں نہیں معلوم ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہاں ڈی سی اور دیگر لوگ تو بادشاہ لوگ ہیں وہاں ، ان کو انسانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، انہیں عوام کی خدمت کیلئے لایا گیا اپنے نام نہاد ماسٹرز کی خدمت کیلئے نہیں ، سپریم کورٹ نے تھر پارکر میں صحت کی سہولیات سے متعلق رپورٹ مسترد کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں ہوا ،سندھ حکومت نے اپنی بنیادی ذمہ داری بھی ادا نہیں کی ، سیکریٹری صحت کی یقین دہانی کرائی خود جاکر اقدامات کروں گا ،سپریم کورٹنے سول اسپتال مٹھی کو تمام تر سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مطلوبہ جدید آلات کے ساتھ آپریشن تھیٹر مکمل فعال کیا جائے ، عدالت نے لیڈی ہیلتھ ورکر اور صحت کے دیگر عملہ کو بھی فعال کرنے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اسپتالوں اور میڈیکل سینٹرز پر ادویات فراہمی کو یقینی بنایا جائے ، عدالت نے غیر حاضر اور غیر فعال ڈاکٹرز اور عملے کے خلاف کارروائی کرنے اور تھرپارکر میں تقررری پانے والوں کے تبادلہ روکنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تھرپارکر میں تعینات ہونے والے ڈاکٹرز اور عملے کا دوسرے ضلع میں تبادلہ نہ کیا جائے ڈاکٹرز کو کم از کم تین سال سے قبل دوسرے ڈسٹرکٹ میں ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا ، عدالت عظمی نے ایک ماہ میں اقدامات کی رپورٹ طلب کرلی۔