معیشت سے سرمایہ داری کی جڑکٹنے کے خوف سے حکمران طبقہ سودی نظام ختم کرنے پر آمادہ نہیں

915

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) سودی نظام کا خاتمہ اور اسلامی معاشی نظام کا آغاز بہت متحرک اور پر جوش چیلنج ہے‘ درحقیقت ہماری حکومتیں یہ چیلنج قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں‘ پاکستان کا حکمران طبقہ سودی نظام ختم کرنے کے لیے اس لیے آمادہ نہیں کہ سود کا کاروبار ختم ہونے کی وجہ سے قومی معیشت سے سرمایہ داری کی جڑکٹ جاتی ہے‘ بیمہ، قمار اور تمام سودی معاملات کے بند ہونے سے غیر معمولی اور غیر فطری طبقاتی تفاوت ختم ہوجاتا ہے‘ اگرحکومت انسداد سود کے لیے عملی اقدامات کرنے کی خواہشمند ہوتی تو یقیناً اقدامات بروئے کار لانے کا اہتمام کرتی لیکن اس نے اس کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا کیونکہ سوشلزم اور اشتراکیت کے لیے راستہ بند ہوجاتا ہے‘ عالمی دباؤ، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی معاشی اداروں کے خوف، قرآن و سنت سے نا آشنائی اور اسلام سے بے رغبتی کی وجہ سے حکمران طبقہ سودی نظام کے خاتمے پر آمادہ نہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اسلامک اسٹیڈیز کی سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر رابعہ مدنی، جامعہ کراچی کے شعبہ کامرس میں بطورخدمات انجام دینے والی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صدف مصطفی، کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن وسنہ کے ڈاکٹر مفتی نوید انور اور ہائی کورٹ کی عنبر مہر ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان کا حکمران طبقہ سودی نظام کے خاتمے پر کیوںآمادہ نہیں؟‘‘ ڈاکٹر رابعہ مدنی کا کہنا تھا کہ2002ء میں مولانا تقی عثمانی کے ایلیٹ بینچ نے ایک تاریخی فیصلہ دیا تھا اس کو ربا کا تاریخی فیصلہ بھی کہا جا تا ہے اور اس کا ذکر مولانا تقی عثمانی کی ایک معرکتہ آراء کتاب میں موجود ہے اس میں حکومت کو حکم دیا گیا کہ وہ عوام کو ان کے عقائد کے حساب سے بینکاری نظام میں دونوں اختیار دیںکہ وہ سودی بینکاری اختیار کرنا چاہتے ہیں یا پھر وہ بلا سود بینکاری کے نظام کو پسند کرتے ہیں کیونکہ ہم کسی بھی شخص کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف کوئی راستہ بنائے کہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ دونوں اقسام کا معاشی نظام عوام کو فراہم کرے اور پھر افراد اس میں اپنے عقیدے اور اپنی مرضی سے کوئی بھی راستہ چن لیں تو اس کے بعد اس وقت کی نواز حکومت نے اسٹیٹ بینک کو ہدایات دیں کہ اسلامی بینکاری کا سلسلہ بھی شروع کرنا ہے اور پھر اس پر اسلامی بینکاری کا نظام شروع کیا گیا تو اس زمانے میں3 بینکوں نے سب سے پہلے یہ نظام شروع کیا ‘ اسلامی بینک اسلامک بینکنگ پر ہی مشتمل تھا‘ میزان بینک کے حوالے سے مولانا تقی عثمانی کا ذاتی کردار تھا اور اس کے بعد برج بینک کا نام ہے‘ باقی بینکوں کو بھی کہا گیا کہ اسلامک بینکاری شروع کریں تو پھر نیشنل بینک نے اعتماد کے نام سے، یو بی ایل نے امین کے نام سے، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نے صادق کے نام سے اور میٹروپولیٹن نے صراحت کے نام سے اس نظام کو شروع کیا اور پھر عوام کے پاس یہ اختیار پہنچا کہ وہ اپنے عقیدے اور اپنی پسند سے جو چاہیں نظام اختیار کریں‘ حکومت اس نظام کو مکمل طور پر چلا نہیں رہی ہے کیونکہ حکومت خود سودی نظام پر چل رہی ہے‘ آئی ایم ایف کے سامنے ہماری ہر حکوت سر جھکائے کھڑی ہوتی ہے‘ تمام سیونگ سینٹرز جوکہ حکومت کے ہیں وہ سب تمام سود پر چل رہے ہیں اور حکومت کا اپنا پورا کاروبار بھی سود پر چل رہا ہے‘ دراصل اسلامک بینکاری میں منافع اور نقصان دونوں آپشنز کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے‘ اسلامی بینکاری میں مختلف آپشنز ہوتے ہیں جیساکہ مشارقہ، مداربہ ہیں جو کہ اسلامی نظام کا بنیادی حصہ ہے جبکہ ہماری حکومت نقصان برداشت کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے‘ حکومت کے پاس نہ اپنا ذاتی پیسہ ہے اور نہ ایسے ادارے ہیں جن سے پیسے لے کر استعمال کرے اور پھر عوام کو فائدے اور نقصان کا اختیار دے سکے لہٰذا گورنمنٹ اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی ہے اور روایتی بینکاری کا لگا بندھا نظام چل رہا ہے اور حکومت اسی پر تکیہ کیے ہوئے ہے‘ پورے مشرق وسطی میں اسلامی بینکاری رائج ہے کیونکہ وہاں حکوت وقت نے ذمے داری اٹھائی ہے‘ وہ منافع اور نقصان دونوں برداشت کرنے پر تیار ہے۔ عدالت کے کہنے سے عوام کو دوسرا آپشن متوازی طور پر رسمی طور پر ضرور دے دیا مگر حکومت کی کوئی سپورٹ نہیں ہے‘ کچھ لوگ اس نظام کو مستند مانتے ہیں‘ کچھ نہیں مانتے جبکہ درحقیقت یہ اسلامک بینکنگ مکمل اسلامی اصولوں پر ہی مبنی ہے مگر یہ بھی اپنے عقیدے کی بات ہے۔ اس میں قانونی طور پر کوئی لازمی قانون نہیں ہے اور قانون بھی سخت نہیں ہے‘ اگر اسلامی بینکاری کو رائج کرنے میں قانون سخت ہو تو اسٹیٹ بینک اورحکومت بھی اس سلسلے میں دلچسپی لے‘ اگر ہماری حکومت ایسے ادارے بنالے جن میں عوام سے لیا ہوا پیسہ استعمال کر کے نقصان اور فائدہ دونوں برداشت کرنے کی صلاحیت ہو تو ضرور ہمارے ملک میں اسلامی بینک کاری کو فروغ ملے‘سودی نظام کا خاتمہ اور اسلامی معاشی نظام کا آغاز بہت بڑا اور پر جوش چیلنج ہے‘ درحقیقت ہماری حکومتیں یہ چیلنج قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں‘ورنہ ہمارے پاس ایسے ادارے اور حضرات موجود ہیں جو حکومت کی مدد کے ساتھ اسلامی بینکاری نظام رائج کر سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر صدف مصطفی کا کہنا تھا کہ پورا پاکستان اپنے ’’سودی نظام‘‘ کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسولؐکے خلاف جنگ میں’’مصروف‘‘ ہے‘ سود کے ’’خاتمے‘‘ کے بغیر ہم کوئی جنگ جیت نہیں سکتے‘ ہم اربوں ڈالرز صرف’’سود کی مد‘‘ میں دے رہے ہیں‘ تمام مسلمان ممالک میں سود سے ’’چھٹکارے‘‘ کی شدید خواہش پائی جاتی ہے اس لیے متبادل نظام وجود میں لایا جاسکتا ہے جس کو 57 مسلمان ممالک اختیار کرلیں تو دنیا کے مالیاتی سیٹ اپ میں یہ ایک بہت بڑا “اپ سیٹ”ہوگا جسے سرمایہ داری نظام کے وارث ’’بہ امر مجبوری‘‘ قبول کرلیں گے لیکن بدقسمتی سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے پاکستان میں حکومتی سطح پر ابھی تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی‘ سود کے خاتمے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جوکہ اس کو دیا گیا ہے مگراب تک ان کی جانب سے بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر مفتی نوید انور کا کہنا تھا کہ پاکستان چونکہ عالمی نظام معیشت کے تحت جکڑا ہوا ہے‘ اس لیے عالمی دباؤ، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی معاشی اداروں کے خوف، قرآن و سنت سے نا آشنائی اور اسلام سے بے رغبتی کی وجہ سے حکمران طبقہ سودی نظام کے خاتمے پر آمادہ نہیں‘ اگرچہ عدالت عظمیٰ اور وفاقی شرعی عدالت 2 مرتبہ فیصلہ سنا چکی ہے کہ پاکستان سے سودی نظام کی لعنت کو ختم کیا جائے مگر حکومت ہمیشہ اپیل پر چلی جاتی ہے اور آج بھی جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی اس کیس کی پیروی کر رہی ہیں۔ ہائی کورٹ کی وکیل عنبر مہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ14نومبر1991ء کو پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ نے ہر قسم کے سودی کاروبار کو حرام قرار دیکر ملکی معیشت کو جلد اس سے پاک کرنے کا تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا اور 23 دسمبر 1991ء کو عدالت عظمیٰ کے شریعت بینچ نے اس کی تو ثیق کی تھی‘ اس فیصلے سے اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی اور قومِ بنی اسرائیل کی طرح اپنے مفادات کی خاطرحکومتی سطح پر فوری طور پر پالیسی مرتب کی گئی‘ اس کے اہم ستون یہ تھے۔ 1۔ عدالتوں کے ذریعے سود کے حرام ہونے کو متنازع رکھا جائے تا کہ پوری قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔2۔ حکومت عدالت میں یہ موقف اختیار کرے کہ اسلام نے تو اصل میں ربا کو حرام قراردیا جب کہ بینکاری سود تو ربا ہے ہی نہیں۔ موجودہ جدید بینکا ری کی طرز پر ایک اسلامی بینکا ری نظام قائم کیا جائے جو سودی نظام کے شانہ بشانہ چلتا رہے اور جسے اسلامی قرار دینے کے لیے شریعہ ایڈوائزر مقرر کیا جائے یوں ایک ہی بینک لوگوں کو یہ سہولت دے کہ اگر وہ چاہیں تو اسلامی بینکاری کے تحت اکائونٹ کھولیں یا عام بینکا ری کے تحت۔ یعنی چاہے تو اس بینک کی دکان سے حرام کاروبار کریں یا حلال۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر اور بکری کا گوشت بیک وقت دستیاب ہو۔ جبکہ اس سے قطع نظر ہم مسلمان اپنے عقیدہ و ایمان کے حوالے سے اس بات کے پابند ہیں کہ سود کی لعنت پر استوار نظامِ معیشت سے چھٹکارا حاصل کریں اور قرآن و سنت کے فطری اصولوں کے مطابق ملک کا معاشی و اقتصادی نظام استوار کریں‘ پاکستان کا حکمران طبقہ سودی نظام ختم کرنے کے لیے اس لیے آمادہ نہیں کہ سود کا کاروبار ختم ہونے کی وجہ سے قومی معیشت سے سرمایہ داری کی جڑکٹ جاتی ہے‘ بیمہ، قمار اور تمام سودی معاملات کے بند ہونے سے غیر معمولی اور غیر فطری طبقاتی تفاوت ختم ہو جاتا ہے‘ اگر حکومت انسداد سود کے لیے عملی اقدامات کرنے کی خواہشمند ہوتی تو وہ یقیناً وہ اقدامات بروئے کار لانے کا اہتمام کرتی جس سے سودی نظام کا خاتمہ ہوتا ہو لیکن اس نے اس کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا کیونکہ سوشلزم اور اشتراکیت کے لیے راستہ بند ہوجاتا ہے‘ ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں کا فرض ہے کہ اسلام کے قوانین کا نفاذ ملکِ خداداد میں لازمی طور پرکریں تاکہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں۔