زبان وبیان (حصہ چہارم)

432

ہماری تجویز یہ ہے کہ یورنیورسٹیوں میں اردو لٹریچر اور لسانیات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے ابتدائی فارسی اور عربی کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہماری اعلیٰ شہادات (Degrees) کے حامل اردو اسکالرز اور محققین کے لیے ہمارے کلاسیکل اردو ادب اور شاعری سے استفادہ آسان ہو، ورنہ بہت مشکل پیش آئے گی۔
تَسَلْسُل: دوسرے سین کی پیش کے ساتھ یہ لفظ تَسَلْسُل ہے، اس کے معنی ہیں: ’’کسی چیز کا لگے بندھے طریقے سے برابر جاری رہنا‘‘، کئی حضرات اسے دوسرے سین کے زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں، یہ غلط ہے۔
مَجَاز اور مُجاز: میم کے پیش کے ساتھ یہ لفظ ’’مُجاز‘‘ ہے، یعنی جسے کسی بات کا اختیار دیا گیا ہو، انگریزی میں Authorized Person کہتے ہیں، نیز اسے Competent Authority بھی کہتے ہیں، جبکہ میم کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ’’مَجاز‘‘ ہے اور یہ حقیقت کی ضد ہے، لفظ جس معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے، اسے اُسی معنی میں استعمال کرنا حقیقت ہے اور کسی مناسبت کی وجہ سے حقیقت سے عدول کر کے دوسرے معنی میں استعمال کرنا مَجاز ہے۔ بعض حضرات ان الفاظ کا استعمال کرتے وقت معنوی فرق کا لحاظ نہیں کرتے، یہ دونوں لفظ عربی ہیں۔
مُحَال: میم کے پیش کے ساتھ یہ لفظ ’’مُحَال‘‘ ہے، اس کے معنی ہیں: ’’ناممکن‘‘، ہمارے ہاں مشکل ترین کو بھیمُحَال کہتے ہیں، جگر مراد آبادی نے کہا ہے:
ابتدا وہ تھی کہ جینا تھا محبت میں مُحال
انتہا یہ ہے کہ اب مرنا بھی مشکل ہو گیا
میم کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ’’مَحَال‘‘ ہے، عربی میں ’’مَحَالَۃ‘‘ کے معنی ہیں: ’’ہوشیاری، تصرّف کی قدرت‘‘، مقامات، مکانات، منازل، فرود گاہیں۔ یہ حَالَ یَحُوْلُ سے ظرف کا صیغہ بھی ہے، اس کے معنی ہیں: ’’پھرنے کی جگہ‘‘، اسی سے عربی کا کلمہ ہے: ’’لَا مَحَالۃ‘‘، اس کے لفظی معنی ہیں: ’’اس سے پھرنے یا فرار کی کوئی جگہ نہیں ہے، یعنی یہ امرضروری ہے‘‘، ’’لَا مَحَالۃ‘‘ کا لفظ اردو میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے کوئی کہے: ’’آپ کو لامحالہ شادی کی تقریب میں آنا ہو گا‘‘۔
حامی: یہ عربی لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں: ’’حِمایت کرنے والا‘‘، جیسے کہا جاتا ہے: ’’میں آپ کے موقف کا حَامِی ہوں‘‘۔ اس کے ہم وزن ’’ہ‘‘ کے ساتھ لفظِ ’’ہامی‘‘ ہے، یہ ہندی لفظ ہے، ہاں اور میں کا مخفّف ہے، اس کے معنی ہیں: ’’ہاں، اقرار‘‘ اردو میں ’’ہامی بھرنا‘‘ استعمال ہوتا ہے، جیسے کوئی کہے: ’’اُس نے میرا ساتھ دینے کی ہامی بھری‘‘، بعض حضرات معنوی فرق کی رعایت کیے بغیر ان الفاظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرلیتے ہیں۔
نَفْسِیْ نَفْسِیْ: اس کے معنی ہیں: ’’میرا نفس، میرا نفس‘‘، یہ قیامت کے دن کی طرف اشارہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی اور وہ ’’نفسی نفسی‘‘ پکار رہا ہو گا، یعنی محض اپنی ذات کی فکر کرنا اور اپنے غم میں مبتلا ہونا، دوسرے کی خبر گیری سے بے پروائی، اپنا ہی بھلا چاہنا، خود غرضی۔ اردو لغت میں ’’نَفسا نفسی‘‘ بھی اسی معنی میں آیا ہے، لیکن ہماری نظر میں ’’نفسی نفسی‘‘ زیادہ فصیح ہے۔ احوالِ قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جس دن انسان (ہر ایک سے دامن چھڑا کر) بھاگے گا، اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور بیٹوں سے، آج کے دن اُن میں سے ہر ایک کو ایک ایسی پریشانی لاحق ہوگی جو اُسے دوسروں سے بے پروا کردے گی، (عبس: 34-37)‘‘۔
(جاری ہے)