چند ماہ قبل چینی سفیر نے صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں بنگلادیش کوامریکاکی سربراہی میں تشکیل دیے جانے والے ’’کواڈ‘‘اتحادمیں شمولیت پرجارحانہ تنبیہ کی ہے جس پربھارت بھی کافی تلملااٹھاہے۔امریکا’’کواڈ‘‘کی آڑمیں خطے کے ملکوں سے جس اندازمیں اپنے تعلقات مضبوط کررہا ہے،اورچین بھِی اس خطے میں امریکی اقدامات پربڑی گہری نظررکھے ہوئے ہے اس لیے چین کی طرف سے یہ تنبیہ کوئی غیرمتوقع نہیں۔ چین سفارتی سطح اورذرائع ابلاغ کے اداروں کے ذریعے خطے میں امریکی سرگرمیوں پراپنی تشویش کااظہارکرتارہاہے۔ چین کے سرکاری ادارے ’’گلوبل ٹائمز‘‘ کے مطابق امریکاچین اوربنگلادیش کے درمیان غلط فہمیاں پیداکرنے کی کوششیں کر رہاہے۔ادھربنگلادیش کے وزیرخارجہ اے کے عبدالمومن نے فوری طورپرچینی سفیرکے بیان پراپنے ردِعمل میں افسوس کرتے ہوئے کہاکہ کسی بھی دوسرے ملک کی اپنی سوچ اور اپنامؤقف ہوسکتاہے لیکن بنگلادیش اپنی خارجہ پالیسی کاخودتعین کرتاہے۔ چینی سفیرنے10مئی کومتنبہ کیاتھاکہ بنگلادیش کاکواڈ میں شمولیت سے ڈھاکااوربیجنگ کے تعلقات شدیدطورپرمتاثرہو سکتے ہیں۔ بنگلادیش کی حکومت اورملکی ذرائع ابلاغ کے لیے چینی سفیرکایہ بیان باعث حیرت تھا۔
12مئی کوبنگلادیشی اخبار’’دی ڈیلی اسٹار‘‘نے لکھاکہ’’لگتاہے کہ چین کی حکومت اس امکان پرپریشانی کاشکارہے کہ کہیں بنگلادیش اس اتحادکاحصہ نہ بن جائے۔اس پریشانی کی کیاوجہ ہے،ہمیں نہیں معلوم،جوکچھ بھی ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں ہوناچاہیے کہ اس بارے میں فیصلہ کرنے کااختیاربنگلادیش کی حکومت کاہے‘‘۔گوکہ چین نے پہلے کبھی بنگلا دیش کوکواڈسے دوررہنے کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں کہالیکن اس بارے میں کافی عرصے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ایساہی ایک اوربنگلادیشی اخبارنے یکم مئی کوذرائع کے حوالے سے شائع کیاہے کہ چین کے وزیردفاع نے اس سال اپریل میں ڈھاکا میں بنگلادیش کے صدر سے کہاتھاکہ چین چاہتاہے کہ بنگلادیش خطے میں امن،استحکام اورترقی کے لیے چین کاساتھ دے۔ انہوں نے اپریل میں کہاتھا کہ چین اور بنگلادیش کوایسی طاقت کے خلاف متحدہوناچاہیے جوباہربیٹھ کرخطے میں اتحادبنارہی ہے ۔ ان کاواضح اشارہ امریکاکی طرف تھاجس کی بنگلادیش سے تعلقات بہترکرنے میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔
چینی سفیر لی جیمنگ نے اکتوبر2020ء میں چین کے سرکاری اخبار’’گلوبل ٹائمز‘‘کوانٹرویومیں کہاتھا’’امریکا مسلسل اپنے خفیہ عزائم کے تحت چاہ رہاہے کہ بنگلادیش کوبھی چین کے مخالف اتحادکاحصہ بنایاجائے‘‘۔ انہوں نے اس وقت کے امریکی وزیردفاع مارک ایسپرکی حسینہ واجد سے فون پرہونے والی گفتگوکاحوالہ دیااورامریکاکے نائب وزیرخارجہ اسٹیفن بیگن کے بنگلادیش دورے کی بھی نشاندہی کی۔ چینی سفیرنے کہاکہ’’کووڈ19کی وبا،چین اورامریکاکے درمیان شدیدکشیدگی اورچین اوربھارت کے درمیان سرحدی تنازع نے بنگلا دیش کے لیے بیرونی ماحول کوبھی تبدیل کردیاہے۔
بھارتی اخبار’’دی انڈین ایکسپریس‘‘نے18مئی کو لکھا: ’’چینی سفیرکے الفاظ’’ولف واریئرڈپلومیسی‘‘کی طرح ہیں جس میں چینی سفیرنے اپنے ملکی دفاعی اورتجارتی مفادات کے بارے میں سخت زبان استعمال کی۔ چینی سفیرنے اپنے میزبان ملک میں اتناسخت رویہ کیوں اختیارکیاجبکہ بنگلادیش نے چین کے حساس موضوعات پرکبھی بات نہیں کی۔ ڈھاکااور کواڈکے بارے میں بات کرکے چینی سفیرنے دراصل بنگلادیش کے لیے ایک سرخ لکیرکھینچ دی ہے۔ بنگلادیش دفاعی سازوسامان کی خریداری پربڑی حدتک چین پر انحصار کرتا ہے۔ بھارت کے اخبار’’فنانشیل ایکسپریس‘‘کے مطابق بنگلادیش کا86فیصداسلحہ چینی ساخت کاہے۔
اکتوبر2019ء میں بنگلادیش نے امریکاسے اپاچی ہیلی کاپٹراورمیزائل خریدنے کے لیے بات چیت شروع کی تھی۔ ڈھاکامیں امریکی سفارت خانے کی طرف سے کہاگیاکہ ہم 2030ء تک بنگلادیش کی فوج کوجدیدخطوط پراستوارکرنے کی خواہش کی حمایت کرتے ہیں۔بنگلادیش اورامریکاکے درمیان خفیہ معلومات کاتبادلہ کرنے کے لیے بھی مذاکرات ہو رہے ہیں جوکہ جنرل سیکورٹی آف ملٹری انفارمیشن ایگریمنٹ اورایکوزیشن کراس سروسنگ ایگریمنٹ کے تحت ہوسکتاہے۔ اس سال مارچ میں بھارت نے جوکہ کواڈکارکن ہے ، اس نے بنگلادیش کو50کروڑڈالرمالیت کااسلحہ خریدنے کے لیے قرضہ فراہم کیاتھا۔
سیاسی تجزیہ نگاراس سوال کاجواب تلاش کررہے ہیں کہ کیا بنگلادیش کواڈکارکن بنے گا؟اگرکواڈکے بارے میں بنگلادیش کے حالیہ بیانات کودیکھاجائے تولگتاہے کہ بنگلادیش اپنی متوازن اورغیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی جاری رکھے گالیکن فی الواقع ایساہی ہوتاتوچین کے سفیرکویہ بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟جبکہ بھارت بھی یہ کہہ چکاہے کہ کواڈ کو وسعت دینے کاابھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بنگلادیش کے وزیرخارجہ نے چین کے وزیردفاع کی طرف سے کواڈکے حوالے سے جن توقعات اور امیدوں کااظہارکیاگیاتھاان پرکچھ نہیں کہاہے۔
دریں اثناچین نے جنوبی ایشیاکے ملک سے تعلقات کومزیدبہترکرنے کے لیے اپنی کوششوں کوتیزکردیاہے۔چین کے وزیردفاع نے اس سال اپریل میں بنگلادیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی یادمیں تعمیرکیے گئے عجائب گھرپربھی حاضری دی تھی۔یہ چین کے کسی اعلیٰ اہلکارکاشیخ مجیب الرحمان کی یادگارپرپہلادورہ تھااور خیرسگالی کے اس پیغام میں بنگلادیش کے ساتھ چینی حکومت کی طرف سے ہرقسم کے تعاون کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ خطے میں پڑوسیوں سے بہترین تعلقات کی روشنی میں تجارتی ترقی میں ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر امن وآشتی کوفروغ دینابھی ہے لیکن کواڈمعاہدے کی آڑمیں امریکاوبھارت یقیناً چین کے خلاف اپنے مقاصدکی تکمیل کے خواہاں ہیں۔
بنگلادیش کی چین مخالف اتحادکاحصہ بننے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن چین کی طرف سے جاری کردہ تنبیہ سے لگتاہے کہ مودی اس خطے میں امریکاکی شہ پرپہلے بنگلادیش کی قربانی کا خواہاں ہے تاکہ مغرب اورامریکاکی مددسے خطے کاتھانیدابن کراسرائیل جیسی پوزیشن حاصل کرلے لیکن امریکاکی اپنے مفادات کی تکمیل پراپنے ہی دوستوں کی قربانی کی تاریخ کو بھی بغورپڑھ لیناضروری ہے۔ اس لیے بنگلادیش کے لیے ضروری ہے کہ اپنی چادردیکھ کرپائوں پسارے اور بنیے کی باتوں پرکان دھرنے اور ہزاروں میل دور بیٹھے گدھ کی خواہشات پرعمل کرنے کے بجائے اپنے عوام کی خوشحالی،امن اورترقی کے لیے اپنے ان پڑوسیوں کے ساتھ دوستی نبھائے جواس کی خودمختاری اورغیرجانبداری کااحترام کرتے ہوئے اس کے دست وبازوبن سکیں نہ کہ مودی کی ان پالیسیوں کی تائیدکرے جو جلدہی اپناجہازخوداپنے ہاتھوں ڈبونے کی طرف بگٹٹ بھاگ رہاہے۔