نوابشاہ ،شہری حلقوں نے تجاوزات کے خاتمے کا مطالبہ کردیا

181

نوابشاہ(سٹی رپورٹر)شہری حلقوں نے شہر بھر میں تجاوزات کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا اس سلسلے میں شہر کے سماجی سیاسی دینی اور اور ٹریڈ یونینوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دکان داروں کو ان کے شٹر تک سامان رکھنے کا پابند بنایا جائے لیاقت مارکیٹ گڑ مارکیٹ موہنی بازار گول چکرہ اور شہر کے دیگر چھوٹے بڑے بازاروں میں انسداد تجاوزات مہم کو کامیاب بنانے سے ٹریفک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے دنیا میں اس پر مکمل قانون سازی موجود ہے اور قانون سازی پر مربوط حکمت عملی کے ساتھ کارروائی بھی کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں لوگ اپنی رہائشی و تجارتی املاک کے آگے تجاوزات کو برقرار رکھنے میں اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس غیر قانونی عمل کے ذریعے اپنے مال اور ذریعہ معاش کو فروغ دینے کا سبب قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اس عمل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بااثر اور سیاسی اشرافیہ بھی اس غیر قانونی عمل میں مکمل طور پر شریک کار ہے شہر بھر میں سیاسی جماعتوں کی سیاسی بالادستی سے ہٹ کر کارروائی کی جائے تاکہ شہر کی خوبصورتی اور تجاویزات کے خاتمے کے قوانین پر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔ ادھر ریڑھی ورکر ایسوسی ایشن نواب شاہ کے صدر محمد اسلم نوری سلطانی نے کہا کہ نواب شاہ شہر سے تجاوزات کا خاتمہ بے حد ضروری ہے مین شاہراہوں سے تجاوزات ہٹائی جائیں تاکہ ٹریفک کے مسائل حل ہوں مگر گڑ مارکیٹ نمبر1 پر غریب مزدور طبقے کو روزگار کرنے دیا جائے تاکہ ان کے گھروں میں دو وقت کا چولہا جل سکے ہر شہر میں شاھی بازار جیسے چھوٹے بڑے بازار قائم ہیں وہاں پر ٹریفک کی روانی بند ہوتی ہے اسی طرح گڑ بازار بھی ایک مین بازار ہے جہاں صرف مزدور طبقہ اپنی روزی کماتا ہے اگر ان کو ہٹایا گیا تو پھر ہزاروں گھر فاقہ کشی کی جانب چلے جائیں گے ساڑھے چار ہزار ریڑی ورکرز کو با عزت طریقے سے روزگار کرنے دیا جائے وگرنہ یہ اپنے احتجاج کے لیے روڈوں پر نکلنے پر مجبور ہہوں گے۔ ایس ایس پی امیر سعود ڈپٹی کمشنر عامر حسین پنھور اپنا کردار ادا کریں اور اس کا کوئی جامعہ حل نکالیں ریڑھی ورکر ایسوسی ایشن کے صدر محمد اسلم نوری سلطانی نے مزید کہاکہ ہم غریب پرور مظلوموں کی آواز ہیں ہمیں دبایا گیا تو پھر ہم دوسرے قانونی راستے اپنائیں گے ہم انتظامیہ سے محاز آرائی نہیں چاہتے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیںتاکہ اس کا کوئی مستقل حل نکلے اُمید ہے کہ انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے گی۔