کسی بھی ایجاد کا استعمال ہی دراصل اس کے اچھے اور برے، سود مند اور نقصان دہ ہونے پر منحصر ہوتا ہے۔ معاشرے میں اچھے اور برے ہر قسم کے حالات، انسانی رویوں، عادات اور کرداروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر اور اسکولوں یا مدرسوں کی اچھی تعلیم و تربیت ایک ایسا ہتھیار ضرور ہے جو معاشرے کے منفی رویوں، کردار اور حالات کا مقابلہ کرنا سکھاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر نشانچی، شمیر زن اور تیر انداز لازماً اتنا دلیر بھی ہو کہ وہ اپنی آخری سانس اور لہو کے آخری قطرے تک ہر قسم کی آزمائشوں کا مقابلہ کرتا رہے اور اس کے پائے ثبات میں معمولی سی لغزش تک نہ آئے۔
فی زمانہ سوشل میڈیا میں فیس بک ایک ایسی شمشیر ہے جس کی زد میں پورا معاشرہ اور خاص طور سے نوجوان طبقہ اس بری طرح آیا ہوا ہے کہ شاید ہی کوئی اس کی ضربِ کاری سے محفوظ رہا ہو۔ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو یہ ایک ذریعہ ہے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ہر جانب شیاطین کا راج نظر آتا ہے، اسی طرح اس پیغام پہنچانے والے ذریعے پر بھی بہت واضح اکثریت ایسے ہی اذہان والوں کی ہے جن کی قربت شیاطین سے زیادہ ہے لیکن اس کے معنیٰ یہ بھی نہیں کہ ایسے افراد جو انسانوں کی تربیت کرنا چاہتے ہوں اور خواہش رکھتے ہوں اس بات کی کہ معاشرے میں لوگوں تک نہ صرف اچھی باتیں پہنچائیں تاکہ طوفانِ بد تمیزی کے رخ کو موڑا جا سکے، ان کی بھی کوئی کمی نہیں اور وہ اسی میڈیا کے ذریعے اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
پاکستان حالات کے جس چوراہے پر آن کھڑا ہوا ہے وہاں سے اس بات کا پتا نہیں چل رہا ہے کہ چوراہے سے نکلنے والا کون سا راستہ عوام کو ان کی منزل کی جانب لے جائے گا۔ سب سے المناک بات یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی راہبر ہیں وہ اپنا اپنا اعتماد اس بری طرح مجروح کر چکے ہیں کہ لوگ اب ان کی بات ماننے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے میں بے چینی و اضطراب محسوس کرنے لگے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سیاسی قائدین اپنا اعتماد کھو چکے ہیں بلکہ ہر ادارہ عوام کی نظروں میں اس حد تک مشکوک ہو چکا ہے کہ لوگ کسی ایک پر بھی بھروسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عام لوگوں کی طرح مجھ جیسا سن رسیدہ انسان بھی اپنے ہاتھوں میں موبائیل فون تھامے سوشل میڈیا پر محض اس لیے ادھر ادھر دوڑ لگاتا رہتا ہے کہ شاید کسی آزاد ذریعے
سے کوئی ایسی خبر مل جائے جو پاکستان کے عوام کے لیے امید کی کرن بن سکے۔ اس بھاگ دوڑ میں کوئی ایسی خبر تو نہ مل سکی لیکن دل کو چھو لینے والی ایک تحریر ضرور مل گئی جو میں من و عن نہ صرف نقل کرنا چاہتا ہوں بلکہ میں اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر اپنی بات کو ختم بھی کرنا چاہتا ہوں تاکہ باقی فیصلہ قارئین خود کر سکیں۔
دو توتا توتی کسی دور دراز کی بستی سے اپنی بستی کی جانب جا رہے تھے۔ راستے میں انہیں ایک نہایت سرسبز درخت دکھائی دیا۔ سوچا کہ اس کی چھاؤں میں کچھ دیر سستا لیا جائے تو اچھا ہے۔ دونوں درخت کی گھنی چھاؤں میں بیٹھے تو انہیں بہت سکون ملا۔ اچانک ان کی نظر بستی کی جانب گئی تو انہوں نے دیکھا کہ بستی میں، مکانات، بازار، گلیاں اور سڑکیں تو بہت عمدہ بنی ہوئی ہیں لیکن انسانی ہلچل بالکل بھی نہیں۔ پہلے تو اس کو وہ اپنا وہم سمجھے لیکن جب کافی دیر گزرجانے کے باوجود بھی کوئی چہل پہل نظر نہیں آئی تو انہیں بستی کے ویران ہوجانے کا یقین آ ہی گیا۔ یہ حالت دیکھ کر توتے نے سرد آہ بھری اور توتی سے کہنے لگا کہ بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس بستی میں الو ہوں تو اس کی نحوست سے وہ بستی ویران ہو جایا کرتی ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اوپر خاموشی کے ساتھ بیٹھا الو ان کے پاس آ گیا۔ توتا توتی شرمندہ بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ الو نے کہا لگتا ہے تم بہت دور سے آئے ہو اور ابھی تمہارا سفر باقی ہے۔ اگر برا نہ مانو تو میری میزبانی قبول کر لو۔ الو نے ان کے لیے ان کی پسند کی ہر شے فراہم کی جس پر وہ بہت خوش بھی ہوئے اور معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ کچھ دیر بعد توتے نے رخصت چاہی تو الو نے توتی کا ہاتھ پکڑ لیا کہ اس کو کہاں لے جا رہے ہو یہ تو میری بیوی ہے۔ توتے نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو، کہیں توتی الو کی بیوی ہو سکتی ہے۔ بات بڑھ گئی تو الو نے کہا کہ بے شک بستی کے سارے افراد یا تو مر گئے ہیں یا بستی چھوڑ کر چلے گئے ہیں لیکن ایک قاضی ابھی تک اس بستی میں موجود ہے کیوں نہ اس سے فیصلہ کرالیا جائے۔ وہ تینوں قاضی کے پاس پہنچے اور اپنا اپنا دعویٰ قاضی کے سامنے پیش کیا۔ قاضی نے سوچا کہ توتے کو تو یہاں سے چلے جانا ہے اور مجھے الو کے ساتھ ہی رہنا ہے اس لیے اس نے فیصلہ الو کے حق میں کردیا توتا توتی روتے ہوئے واپس درخت پر آئے۔ توتے نے کہا کہ اب تو اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آ چکا ہے اس لیے میں توتی کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ جب توتا جانے لگا تو الو نے کہا کہ کیا تم توتی کو ساتھ لیکر نہیں جاؤ گے۔ توتے نے کہا کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔ شہر کا قاضی فیصلہ سنا چکا ہے۔ الو نے کہا کہ نہیں تم اپنی توتی کو ساتھ لے جاؤ۔ میں تو تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الوؤں کی وجہ سے ویران نہیں ہوا کرتیں، ایسی عدالتوں، قاضیوں اور فیصلوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوا کرتی ہیں۔