اللہ تعالی نے رشتوں کے دو سلسلے چلائے ہیں: ایک کا تعلق نسب سے ہے اور دوسرے کا سسرال سے۔ دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے‘‘۔ (الفرقان: 54)
اس آیت کی تشریح میں مولانا سید ابوالاعلی مودویؒ نے لکھا ہے:
’’یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بناکر کھڑی کرتا ہے، مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں، بلکہ دو الگ الگ نمونے (مرد و عورت) بنائے، جو انسانیت میں یکساں، مگر جسمانی ونفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں اور اس اختلاف کی وجہ سے وہ باہم مختلف ومتضاد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں۔ پھر ان جوڑوں کو ملاکر وہ عجیب توازن کے ساتھ (جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنی دخل بھی نہیں ہے) دنیا میں مرد بھی پیدا کرتا ہے اور عورتیں بھی، جن سے ایک سلسلہ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے۔ جو دوسرے گھروں سے بہویں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے، جو دوسرے گھروں کی بہویں بن کر جاتی ہیں۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہوجاتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن)
صلہ رحمی کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ نسبی اور سسرالی دونوں رشتوں کا احترام کیا جائے اور ان رشتوں سے جڑنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور حسب توفیق ان کی خدمت کی جائے۔
شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح اپنے سسر اور ساس کا بھی احترام کرے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اسی طرح بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ساس اور سسر کو اپنے حقیقی ماں باپ کا درجہ دے۔ ان کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آئے اور حسب توفیق ان کی خدمت کرے۔ دوسری طرف گھر کے بزرگوں (مرد اور عورت) کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بہو کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آئیں۔ اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں اور اس کی طرف سے خدمت ملنے پر اظہار تشکّر کریں۔ اسی طرح داماد سے بھی الفت ومحبت کا رشتہ رکھیں، وقت ضرورت اس کے کام آئیں اور اس کو اپنی خوشی اور غم میں شریک کریں اور اپنے خاندان کا حصہ سمجھیں۔
نسبی اور سسرالی دونوں طرح کے رشتوں کی پاس داری سے مضبوط اور مستحکم خاندان وجود میں آتا ہے، جس کے تمام افراد باہم شیر و شکر ہوکر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ خوشیوں میں شریک ہوتے اور مصیبت میں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو سعادت مند بیٹے کو آگے بڑھ کر اسے پورا کرنا چاہیے۔ اس کی توجہ نہ ہوسکے تو باپ حکم دے کر بیٹے سے وہ کام کرواسکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا وہ کام نہ کرسکے، یا کسی وجہ سے باپ بیٹے سے وہ کام کرنے کے لیے نہ کہہ سکے تو وہ داماد سے اس کام کو کرواسکتا ہے۔ اسی طرح داماد اپنی ساس سسر کا کوئی کام خوش دلی سے کرسکتا ہے، چاہے ان کے اپنے بیٹے موجود ہوں۔
کسی شخص کا کوئی بیٹا نہ ہو یا اس کے بیٹے ہوں، وہ اپنی آسانی کے لیے یا داماد کو سہولت پہنچانے کی غرض سے اپنے گھر رکھ سکتا ہے۔ وراثت میں داماد کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن بیٹوں کو محروم کیے بغیر کوئی شخص کسی رواج وغیرہ کے جبر کے بغیر اپنے دل کی خوشی سے حسب ضرورت داماد کو کچھ ہبہ کرسکتا ہے یا ایک تہائی حصہ تک اس کے حق میں وصیت کرسکتا ہے۔