سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ووٹ کا حق دینے کے بارے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس قدر عجلت میں قانون منظور کیا گیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ حکومت کو اپنی جیت ثابت کرنے میں بد حواسی تھی۔ اس اہم قانون کی منظوری سے پہلے اس کے تمام پہلووں اور اس کے مضمرات پر بحث نہیں ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سمندر پار مقیم پاکستانی اپنی کمائی سے بھاری رقوم وطن بھیج کر ملک کی معیشت کو بحران سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور ملک کے عوام ان کے احسان مند ہیں لیکن اس سلسلے میں جذباتی انداز سے سوچنے کے بجائے اس پر حقیقت پسندانہ انداز سے غور کیا جانا بہتر ہے۔ سب سے پہلے تو اس بارے میں غور ضروری ہے کہ آیا تمام سمندر پار پاکستانیوں کو وہ جہاں آباد ہیں یا کام کر رہے ہیں آسانی سے ووٹ کا حق دیا جا سکتا ہے؟ برطانیہ، امریکا اور یورپ میں جہاں پاکستانیوں کی دوہری شہریت تسلیم کی جاتی ہے اور انہیں سیاسی سرگرمیوں کی کھلی اجازت ہے وہاں تو انہیں پاکستان میں ووٹ کا حق استعمال کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی لیکن سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو اس سلسلے میں دشواری پیش آئے گی۔ پھر اگر ان ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو اس حق کے استعمال کا موقع مل بھی گیا تو سوال یہ در پیش ہوگا کہ کیا یہ پاکستانی اپنا حق رائے دہی کہاں استعمال کر سکیں گے۔ اگر انہیں پاکستانی سفارت خانوں یا قونصل خانوں میں ووٹ دینے کا اہتمام کیا گیا تو بہت سے پاکستانیوں کے لیے جو دور دراز علاقوں میں کام کرتے ہیں وہاں جانا دشوار ہوگا۔
اگر انہیں انٹرنیٹ کے ذریعہ ووٹ کا اختیار دیا گیا تو کیا ان تمام پاکستانیوں کو انٹر نیٹ کی سہولت حاصل ہے؟ اور سب سے مشکل مرحلہ انٹرنیٹ کے ذریعے ووٹ دینے والوں کی پاکستانی شہریت کی تصدیق کا ہوگا۔
برطانیہ، امریکا اور یورپ کے بعض ممالک میں جہاں پاکستانی سیاسی جماعتیں قائم ہیں وہاں پہلے ہی ان میں رقابتوں کی وجہ سے پاکستانی منقسم ہیں اور وہ متحد ہو کر اپنے مسائل کے حل کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔ شروع شروع میں جب پاکستانیوں کی سیاسی جماعتیں قائم ہونی شروع ہوئیں تھیں تو یہی خطر ہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان سیاسی جماعتوں کی وجہ سے پاکستانی سیاسی رنجشوں میں الجھیں گے اور وہ اپنے مسائل کے حل کی طرف توجہ نہ دے سکیں گے۔ اور ایک عرصہ تک یہی ہوتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستانی اپنی نئی نسل کی تعلیم اور اپنے روزگار کے مسائل کے لیے کوئی منظم اور ٹھوس اقدام نہ کر سکے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں آباد ہندوستانی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ اول تو ان کی حکومت نے انہیں دوہری شہریت کی سہولت نہیں دی اور دوم خود وہ یہاں اپنے ملک کی سیاسی جماعتیں قائم کرکے ان کے اختلافات اور ان کی رقابتوں میں نہیں الجھے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ برطانیہ میں آباد ہندوستانی پوری دلجمعی کے ساتھ برطانیہ کی سیاسی جماعتوں میں سر گرم عمل ہوئے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہے۔ گو برطانوی کابینہ میں دو اہم وزارتیں وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ ہندوستانی نژاد افراد کے ہاتھ میں ہیں، لیکن برطانوی پارلیمنٹ میں اس وقت ہندوستانی اور پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کی تعداد برابر ہے۔ پندرہ۔ پندرہ۔
بہت سے مبصروں کو اندیشہ ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں ووٹ کے حق کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانی، پاکستان کی سیاست میں الجھ جائیں گے اور اس کا امکان ہے کہ برطانیہ کی سیاست سے ایسا قریبی تعلق نہ رہے جو اس وقت ہے۔ کاش کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے قانون کی منظوری سے پہلے اس کے تمام پہلووں اور اس کے مضمرات پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا