پاکستان اس فریم ورک کو خطے کیلئے بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے،شاہ محمود قریشی

244

 وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کنیکٹیویٹی  کےحوالے سے سی پیک  ایک اہم اقدام ہے، پاکستان اس فریم ورک کو خطے کیلئے بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں پرامن اور خوشحال افغانستان پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ ہمارے خطے اور عالمی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہندوتوا کے نظریے کی پیداوار ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) میں زیر تربیت افسران سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں زیر تربیت افسران کے ساتھ بات چیت کرنا ہمیشہ خوشی کا باعث رہا ہے۔مجھے کئی دوست ممالک کے باسی شرکاء کو پاکستان کے سول اور فوجی افسران کے ساتھ اکٹھے دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ہم واقعی “دلچسپ دور” سے گزر رہے ہیں۔ جہاں دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ہم، اپنے قومی مفادات کو فروغ دینے اور ان کو پہنچنے والے نقصانات کو روکنے کے لیے نئے حقائق سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہیں۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا،وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ اس لیے ہمارے اقتصادی مفادات کو فروغ دینے اور اپنے ثقافتی اور تاریخی تعلقات کو زندہ رکھنے کے لیے بہتر رابطہ ضروری ہے۔ کنیکٹیویٹی حوالے سے سی پیک، ایک اہم اقدام ہے۔ پاکستان اس فریم ورک کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے۔ گوادر پورٹ CPEC فریم ورک کے اہم اجزاء  میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں گوادر اتنا اہم کیوں ہے؟ اول، یہ دنیا کی واحد قدرتی گہری سمندری بندرگاہ ہے،دوسرا، یہ بی آر آئی اور شاہراہ ریشم کے منصوبوں کو جوڑتی ہے،  تیسرا، وسطی ایشیا اور افغانستان کے لیے مختصر ترین راستہ ہونے کی وجہ سے یہ خطے کے لیے گیٹ وے کے طور پر کام کرنے کے لیے موزوں ہے، چوتھا، یہ یورپ سے یوریشیا تک ایک ممکنہ علاقائی تجارتی مرکز ہے لہٰذا، ہم گوادر کو علاقائی تعاون اور مشترکہ اقتصادی فوائد کے بے پناہ امکانات کے مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں ،کئی ممالک نے CPEC میں شرکت کیلئے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان CPEC کے تحت ساتھ بنائے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کرنے والے  دیگر ممالک کو خوش آمدید کہے گا۔ اس طرح علاقائی روابط اور مشترکہ ترقی کے ہمارے وڑن کو عملی شکل ملے گی ہمارا مقصد روزگار کے مواقعے اور علاقائی تجارتی روابط کا فروغ  ہے۔ ہم CPEC کو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر سمجھتے ہیں۔افغانستان مشترکہ ذمہ داری کا حصہ ہے، پاکستان نے افغانستان میں مذاکرات اور مفاہمت کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک پرامن اور خوشحال افغانستان پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ہم افغانستان کی مدد میں متحرک رہے ہیں۔ 15 اگست کے بعد، ہم نے 37 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے 30,000 سفارتی اور این جی او کے عملے اور میڈیا کے افراد کو نکالنے میں سہولت فراہم کی،ہم اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کا انخلاء￿ ، بین الاافغان مذاکرات میں پیشرفت کے ساتھ، ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔پاکستان کا خیال ہے کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے عالمی برادری کا اتحاد ہے۔بدقسمتی سے، امن مخالف عناصر، ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ہمارے خطے اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہندوتوا کے نظریے کی پیداوار ہے،فروری 2019 میں بھارتی جارحیت نے جنوبی ایشیا کو جنگ کے دہانے پر دھکیل دیا۔ہمارا ردعمل اشتعال کا مقابلہ کرنے، روکنے اور اس آگ کو  بجھانے والا تھا۔ ہم یہ تینوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔  ہم نے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا اور کسی بھی بیرونی مہم جوئی کو ناکام بنانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔مخدوم شاہ محمود قریشی  نے کہا کہ پاکستان کا مسلسل موقف رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن جموں و کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل پر منحصر ہے۔ پاکستان کے ساتھ بامعنی اور نتیجہ خیز تعلقات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔