الحمدللہ علیٰ احسانہٖ! تحریک ِ لبیک اور حکومت ِ پاکستان کے درمیان معاہدے پر اب تک کی پیش رفت نہایت حوصلہ افزا ہے، تمام معاملات درست سَمت میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں، رکاوٹیں ہرکام میں پیش آتی ہیں، لیکن اُن سے دل شکستہ ہوکر حوصلہ ہارنے کے بجائے اُنہیں دور کرنا حوصلہ مندلوگوںکا کام ہوتا ہے، مشکلات کے آگے سِپر انداز ہونا اصحابِ عزیمت کا شِعار کبھی نہیں رہا۔ میں نے وزیر آباد جاکر مظاہرین سے خطاب کیا، انہیں اپنی قیادت سے وفادار رہنے اور اُن کی ہدایات کی بجا آوری کی تلقین کی، اُن سے گزارش کی کہ کل مین جی ٹی روڈ خالی کردیںاور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تحریک لبیک کی قیادت اور کارکنان معاہدے میں طے شدہ تاریخ پر وزیر آباد میں مین جی ٹی روڈ کو خالی کرکے قریب ہی چٹھہ پارک میں منتقل ہوگئے، وہاں پرامن و پرسکون رہے، ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ کے نعرے لگاتے رہے اور اپنے دلوں کو عشقِ مصطفی سے گرماتے رہے۔ پھر گزشتہ پیر کے دن انہوں نے وزیر آباد سے احتجاجی دھرنا ختم کیا اور پرامن طریقے سے جامع مسجد رحمۃ للعالمین لاہور کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔ وہاں وہ علامہ خادم حسین رضویؒ کے عرس کے انعقاد تک موجود رہیں گے، ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد ہے اور توقع ہے کہ امیر تحریک لبیک علامہ حافظ سعد حسین رضوی اس سے پہلے رہا ہوکر آجائیں گے اور عرس کے موقع پر مرکزی خطاب کریں گے۔ اس کے بعد تحریک لبیک کی مجلسِ شوریٰ اور مرکز سے لے کر صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح تک کے عہدیداران اپنی جماعتی نظم پر توجہ دیں گے، کارکنوں کی تربیت کریں گے، ان تمام مراحل اور تجربات سے کارکنوں کو آگاہ کریں گے اور سب کو اعتماد میں لیں گے۔
اسے اللہ تعالیٰ کا فضل، ختم المرسلینؐ کا فیضان، علامہ خادم حسین رضوی کا اخلاص اوران کی کرامت جانیں اور عشقِ مصطفیؐ کی حرارت سمجھیں کہ ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود ان کے جذبے بدستور جوان ہیں، میں نے وزیر آباد کے خطاب میں کہا تھا: ’’علامہ خادم حسین رضویؒ نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں عشقِ رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی ہے جس کی تابانی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور انہیں اس طرح چارج کیا ہے کہ اب وہ ’’آٹو چارج‘‘ اور ’’سیلف اسٹارٹ‘‘ہیں، انہیں ریچارج کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موسم کی شدّت وحِدّت بھی ان کے جذبوں کو ماند نہیں کرپاتی، شاعر نے فطرتِ اسلام کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے:
اسلام زمانے میں، دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضموں، ہم تم کو دکھا دیں گے
اسلام کی فطرت میں، قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے
مولانا الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مِسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
’’مِسِ خام کو کُندن بنانے‘‘ کے معنی ہیں: ’’کچی دھات (مثلاًخام سونے) کو بھٹی میں ڈال کر اور کھوٹ نکال کر خالص اور کھرا سونا بنایا، مولانا حالی نے علم، تہذیب، شائستگی اور اعتقادِ خالص سے عاری انسان کو خام دھات سے تشبیہ دی اور یہی خام دھات جب عشقِ رسالت کی بھٹی میں ڈھل گئی تو انسانی شاہکار وجود میں آئے، چنانچہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، ان میں سے زمانۂ جاہلیت میں جس میں کوئی جوہر کمال تھا، اسلام قبول کرنے اور حقیقت ِ اسلام کو سمجھنے کے بعدوہ انسانیت کے بہترین نفوس بن گئے، (مسلم)‘‘۔ الغرض خام کو پختہ کردیا، بے کمال کو باکمال بنادیا اور باکمال کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا۔