54سال تک بالعموم پوری دنیااوربالخصوص یورپ، امریکا اورروس ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ اورسردجنگ کاشکاررہے جہاں سوویت یونین مسلسل اپنے حلیف ممالک کی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے فکرمندرہتاتھاجبکہ امریکاکویورپ میں اپنے اتحادیوں کی کمزوری کاخوف لاحق رہتاتھالیکن اب چین اورامریکا کامقابلہ سردجنگ سے بالکل مختلف ہے۔دونوں ممالک کی مسلح افواج کہیں بھی ایک دوسرے کے سامنے موجودنہیں ہیں۔اگرچہ تائیوان اورشمالی کوریاتناؤکامرکزہیں اوردونوں تنازعات دہائیوں سے جاری ہیں لیکن چین اور امریکاکے درمیان دشمنی کامرکزجنوب مشرقی ایشیابنے گا۔اس خطے میں تنازع کی کوئی واضح شکل موجودنہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان مسابقت مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیاکے ممالک امریکااورچین کودوبڑی طاقتوں کے طورپردیکھتے ہیں اوردونوں میں سے کسی ایک سے اتحادچاہتے ہیں۔ مثال کے طورپرمیانمرمیں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے جرنیلوں کی حمایت پرچین کے خلاف پلے کارڈاٹھا رکھے ہیں جبکہ امریکاسے مداخلت کی اپیل بھی کی جارہی ہے۔امریکااورچین سے تعلقات کے حوالے سے خطے کے ممالک دباؤکاشکار ہیں۔2016میں فلپائن کے صدرنے امریکاسے الگ ہوکرچین سے اتحادکاکھلے عام اعلان کیاتھا۔چین کادعویٰ ہے کہ جنوبی بحیرہ چین کا پوراعلاقہ اس کاہے جبکہ امریکااس دعوے کومستردکرتاہے توخطے کاسب سے اہم اتحادآسیان ناراض ہوجاتاہے،چین اس اتحادپرکنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔
چین کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظرکشیدگی میں مزیداضافہ ہوگا۔یہ بالکل چین کی دہلیزہے،تیل،دیگرخام مال چین منتقل کرنے اورتیارمال دنیاکوبھیجنے کا تجارتی راستہ۔چین مشرق میں جاپان،جنوبی کوریااورتائیوان جیسے مضبوط امریکی اتحادیوں سے گِھراہواہے جبکہ جنوب مشرقی ایشیامیں چین کے لیے حالات سازگارہیں اوریہاں سے بیجنگ کوتجارتی اورفوجی مقاصد کے لیے بحیرہ ہند اوربحرالکاہل میں رسائی ملتی ہے۔صرف جنوب مشرقی ایشیامیں نمایاں طاقت بننے سے ہی چین اپنے دنیاسے کٹ جانے کاخوف دورکر سکتاہے لیکن جنوب مشرقی ایشیا چین کے لیے صرف دوسرے ممالک تک جانے کاراستہ نہیں بلکہ یہ دنیاکااہم علاقہ بھی ہے،اس وجہ سے بھی امریکااورچین کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
جنوب مشرقی ایشیامیں70کروڑلوگ رہتے ہیں،جویورپی یونین،لاطینی امریکااورمشرقی وسطی سے بڑی آبادی ہے۔اس کی معیشت اگریہ ایک ہی ملک ہوتاتوچین،امریکااور بھارت کے بعددنیاکی چوتھی معیشت ہوتی۔یہاں معاشی ترقی کی رفتاربھی کافی تیزہے۔
ایک دہائی کے دوران انڈونیشیااورملائیشیاکی معیشت میں5سے6فیصداضافہ ہوا۔اسی طرح فلپائن اورویتنام کی معیشت6سے7فیصد تک بڑھ گئی۔خطے کے غریب ممالک جیسے میانمراورکمبوڈیابھی تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔چین سے مقابلہ کرنے والے سرمایہ کارجنوب مشرقی ایشیاکاانتخاب کررہے ہیں،یہ خطہ مینوفیکچرنگ کامرکزبن گیاہے۔یہاں کے صارفین کی قوت خریدبڑھ چکی ہے،یہ خطہ اب دنیا بھر کے لیے قابلِ کشش بازاربن چکاہے۔تجارتی اورجیوپولیٹیکل لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیاایک بہت بڑاانعام ہے اوردونوں حریفوں میں چین اس انعام کوزیادہ جیتنے لگاہے۔
امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق بیجنگ اس خطے کاسب سے بڑاتجارتی شراکت دارہے اورامریکاکے مقابلے میں زیادہ سرمایہ کاری کررہاہے۔کم ازکم ایک جنوب مشرقی ایشیائی ملک کمبوڈیاپرچین مکمل غلبہ حاصل کر چکاہے جبکہ کوئی بھی ملک کھل کرامریکاکاساتھ دینے اورچین کوچیلنج کرنے کوتیار نہیں ہے۔چین سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے تعلقات بظاہر قریبی نظرآتے ہیں لیکن یہ ممالک ان تعلقات کولے کرپریشان ہیں۔بڑے پیمانے پرچینی سرمایہ کاری کچھ برائیاں بھی ساتھ لاتی ہے۔چینی فرموں پراکثربدعنوانی اورماحولیات کی خرابی کاالزام عائد کیاجاتاہے۔ چینی کمپنیاں مقامی لوگوں کوروزگاردینے کے بجائے چینی باشندوں کوبلاکرملازمت دینے کوترجیح دیتی ہیں،جس سے سرمایہ کاری کے معاشی فوائد کم ہو جاتے ہیں۔اس کے بعدبھی چین کسی بات پرناراض ہوکران ممالک میں سرمایہ کاری اورتجارتی پابندیاں عائدکردیتاہے۔ جس سے یہ ممالک عدم تحفظ کاشکارہوجاتے ہیں۔
امریکی یکطرفہ پروپیگنڈے کے مطابق چین اپنی فوجی طاقت سے بھی پڑوسیوں کوخوفزدہ کررہاہے۔اس نے بحیرہ جنوبی چین کے جزائرپرقبضہ کرلیاہے اوراپنے قریب کے سمندرمیں مچھلی پکڑنے اورتیل کی تلاش میں آنے والے پڑوسی ممالک کے جہازوں کو ہراساں کرتاہے،جس کے نتیجے میں چین کے ویتنام سے انڈونیشیا تک تمام جنوب ایشیائی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔چین میانمر میں جمہوری حکومت کے خلاف لڑنے والوں جنگجوؤں سے تعلقات بھی رکھتاہے،جبکہ ماضی میں بیجنگ خطے میں لڑنے والے گوریلوں کی حمایت کرتارہاہے۔اس طرح کے طرزِعمل نے چین کوپورے خطے میں ناپسندیدہ بنادیاہے۔اسی لیے ویتنام میں اکثرچین مخالف فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیامیں اکثرغیر قانونی چینی باشندوں کی آمداورچین کی مسلم اقلیت سے سلوک کولے کرمظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ چھوٹے ملک لاؤس میں بھی،جہاں کمیونسٹ آمریت ہے،جہاںعوام کی مرضی کو سنانہیں جاتا،وہاں بھی چینی تسلط کے خلاف کھلے عام بات کی جاتی ہے۔جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اقتصادی نتائج کے خوف سے چین پرکھلے عام تنقیدنہیں کرسکتے ، لیکن وہ اپنے شہریوں کے خوف سے بیجنگ کے ساتھ محتاط رہتے ہیں۔چین کی جنوب مشرقی ایشیا میں تسلط قائم کرنے کی کوشش کی کامیابی کاامکان کم ہے۔جنوب مشرقی ایشیائی ریاستیں اپنے خوشحال پڑوسی کے ساتھ تجارت اورسرمایہ کاری روابط ختم نہیں کرناچاہتیں لیکن وہ بھی وہی چاہتی ہیں، جو امریکا چاہتاہے۔یعنی امن واستحکام اوراصولوں پرمبنی طریقہ، جس میں طاقت کے استعمال کے ذریعے چین تسلط حاصل نہیں کرسکتا۔ (افغانستان،امریکااورعرب بہارمیں امریکااوراس کے اتحادیوں کا کردارکسی سے ڈھکاچھپانہیں)۔
جنوب مشرقی ایشیائی خطے کے بڑے ممالک بھی ابھی دیکھ رہے ہیں کہ اپنے داؤپیج لگاکرکیاحاصل کرسکتے ہیں۔ امریکااس علاقے میں اپنااثرونفوذبڑھاتے ہوئے یہ پینترہ بدل رہا ہے کہ اس خطے کوچین کے تسلط سے بچانے کے لیے اب امریکااپنے اتحادیوں سمیت چینی اثرو رسوخ کامتبادل فراہم کرے گاتاکہ ان ممالک کواپنے آپشن کھلے رکھنے کے لیے تیارکر سکے ۔ جس کے لیے ایک علاقائی اتحادبھی قائم کیاجاسکتا ہے کیونکہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے مابین تجارت اورسرمایہ کاری چین سے ہونے والے کاروبارسے کہیں زیادہ ہے۔ایک او ر طریقہ کاردوسرے ایشیائی ممالک جیسے جاپان اورجنوبی کوریا کے ساتھ تعلقات کومزیدمستحکم کرنابھی اس میں شامل ہوگا۔اس حوالے سے آسیان نے درست راستہ اختیارکیا ہے لیکن اس خطے کے معاملات پرگہری نظررکھنے والے سیاسی دانشوروں کاامریکاکومشورہ ہے کہ خطے کے ممالک کوزبردستی ساتھ ملانے سے گریزکرناچاہیے،یہ ایک جال ہے اوراسی چیز کامقابلہ کرنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پرعزم ہیں۔کہیں ایسانہ ہوکہ امریکااس گرم کیک کوکھانے کی خواہش میں اپنامنہ جلابیٹھے۔