!بند لفافے میں کیا ہے

415

حصہ دوم
ریمنڈ ڈیوس نے سرکاری اہلکاروں کو شہید کیا تھا، اس کے بارے میں تو لبرلز نے اس شدّومد کے ساتھ مطالبہ نہیں کیا کہ اُسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، اس سے مقتولین کا قصاص لیا جائے اور اُسے نشانِ عبرت بنایا جائے، اُس کے لیے تو عدالت اور عادل خود چل کر جیل گئے، اُسے اعزاز کے ساتھ بری کر کے بحفاظت لاہور ائر پورٹ پہنچایا گیا اور پھر خصوصی ہوائی جہاز میں امریکا روانہ ہوا، پس تحریک لبیک کے کارکنوں کا جرم وہی ہے جو اکبر نے برطانوی استعمار کے دور میں کہا تھا:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ایک تبصرہ بار بار کیا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے، جبکہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا دستور کہتا ہے کہ تمام قانون سازی قرآن وسنّت کے تابع ہونی چاہیے، اس کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل، فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ جیسے آئینی ادارے قائم ہیں، دستور حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانانِ پاکستان کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے سہولتیں بہم پہنچائے، مسلمان کے لیے اسلام کا نام لینا صرف سیکولر ازم لبرل ازم کی ’’شریعت‘‘ میں حرام ہے، ہمارے دستور میں نہ صرف اس کی مکمل اجازت ہے، بلکہ یہ ناگزیر دستوری تقاضا ہے۔
جب میرا کوئی اور جرم سامنے نہ آیا تو اسد طور اور بعض دوسرے حضرات نے اپنے وی لاگ میں کہا: ’’اب مفتی منیب الرحمن تحریک لبیک کی قیادت کریں گے‘‘، گویا اُن کے نزدیک میں نے پرامن معاہدہ کرانے میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ سیاسی مقاصد کے لیے تھا، تحریک لبیک کی قیادت حاصل کرنے کے لیے تھا، اس بدگمانی پر اظہارِ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچے رہو،کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، (الحجرات: 12)‘‘، ’’جس چیز کا تمہیں علم نہیں، اس کی ٹوہ میں نہ لگ جائو، (بنی اسرائیل: 36)‘‘، رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’تم بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، دوسروں کی پوشیدہ باتوں کو جاننے کی کوشش نہ کرو، کسی کی بات سننے کے لیے کان نہ لگائو، ایک دوسرے سے بغض نہ کرو اور بھائی بھائی بن جائو، (بخاری)‘‘، عربی کا مقولہ ہے: ’’(جب تک یقین یا ظنِّ غالب کی حد تک شواہد نہ ملیں) مومنوں کے بارے میں نیک گمان رکھو‘‘۔
پس میری جانب سے اپنے لبرل کرم فرمائوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ میرا تحریک لبیک کی قیادت سنبھالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، بالفرض اگر ان کی پوری مجلسِ شوریٰ مکمل رضا ورغبت سے بھی مجھے ا س کی پیش کش کرے، تب بھی میری طرف سے مکمل اعتذار ہوگا، اسی طرح مجھے ان کا سرپرست یا پالیسی ساز بننے کا بھی کوئی شوق نہیں ہے، ان کا اپنا امیر ہے، اپنی شوریٰ ہے، اپنا نظم ہے۔ بس اتنی بات ہے کہ ہماری نظر میں اُن کا مشن مقدس ہے، ان کا موٹو تحفظِ ختمِ نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت ہے، یہ ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے، اس لیے اُن پر جب بھی کریک ڈائون کرنے اور نیست ونابود کرنے کی بات کی گئی تو میں نے اُن کی حمایت میں آواز بلند کی اور ریاست وحکومت کو کسی عاقبت نا اندیشانہ اقدام کے تباہ کن نتائج پر متنبہ کیا، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر بار بلا ٹل گئی، یہ میرا دینی و مسلکی فریضہ تھا اور اس سے ملک وملّت کو فائدہ پہنچا، میں اس پر اللہ تعالیٰ کے حضور سراپا تشکر وامتنان ہوں۔ ہمارے لبرل کرم فرمائوں کو اندازہ نہیں کہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک پاکستانی مسلمان نہایت مضطرب تھے، اس معاہدے پر انہیں بے حدقلبی مسرّت نصیب ہوئی، یہ سب کی دعائوں کا ثمر تھا، الحمدللہ! نہ میں کسی خوش فہمی یا خبطِ عظمت میں مبتلا ہوں اور نہ اَنا کا اسیر ہوں۔
ہمارے ایک فلسفی کرم فرما یاسر پیرزادہ صاحب نے سوال وجواب کی صورت میں ہمیں اپنی دانش سے فیضیاب کیا ہے، اُن سے گزارش ہے: ’’ہم آپ سے متفق ہیں، ایک غلطی کو دوسری غلطی کا جواز نہیں بنانا چاہیے‘‘، لیکن سب لبرلز کو مل کر ایک مذہبی طبقے کو اپنی نفرت انگیز تنقید کا ہدف بھی نہیں بنانا چاہیے۔ پھر تحریک لبیک کو بعض حضرات نے ایسی تنظیموں سے مشابہت دی ہے، جن کا کردار تاریخ کا حصہ ہے، میں لاہور / اسلام آباد کے اہلِ فکر ونظر سے پوچھتا ہوں: ’’کیا آپ نے کبھی سنا کہ تحریک کا ڈیتھ اسکواڈ یا ڈیتھ سیل یا بھتا سیل ہے، کسی نے آکر آپ سے کہا: ’’تحریک کے لوگ بھتا مانگ رہے ہیں، وغیرہ‘‘، آپ کو یہ فرق بھی ملحوظ رکھنا چاہیے، صرف ’’لبیک یارسول اللہ!‘‘ کے نعرے سے کسی کو اختلاف ہے، تو اُسے ہم معذور سمجھتے ہیں۔
آپ مبہم باتیں نہ کریں، کیا تحریک لبیک ایک دہشت گرد تنظیم ہے، اُن کے ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات ہوتے ہیں، کہیں آپ کو اسلحہ لہراتا ہوا نظر آیا ہے، سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں، انصاف پر مبنی باتیں کریں۔ نیز یہ بتائیں کہ دینی وسیاسی جماعتوں کے سڑکوں پر آنے اور دھرنا دینے کی نوبت ہمیشہ کیوں آتی ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کہ حکومت پرامن لوگوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتی، ان کے جائز مطالبات کو سننے کی روادار نہیں ہوتی، حل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے، پرامن تاریخی ریلی کے بعد بھی شکایات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ ہماری ہردور کی حکومتوں کا بلا استثناء یہی رویہ رہا ہے کہ جب تک لوگ نظام کو جام نہ کردیں، وہ ہرگز قابلِ توجہ نہیں ہوتے، سو پچاس لبرل خواتین کے مظاہرے اور اُن کے مطالبات کو مین اسٹریم میڈیا باربار دکھائے گا، لیکن پرامن مذہبی لوگوں کا ہزاروں لاکھوں کے اجتماع کا بلیک آئوٹ کیا جائے گا، یہ کون سی صحافتی یا اخلاقی قدر ہے۔
(جاری ہے)
الحمدللہ علیٰ احسانہٖ! تحریک ِ لبیک اور حکومت ِ پاکستان کے درمیان معاہدے پر اب تک کی پیش رفت نہایت حوصلہ افزا ہے، تمام معاملات درست سَمت میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں، رکاوٹیں ہرکام میں پیش آتی ہیں، لیکن اُن سے دل شکستہ ہوکر حوصلہ ہارنے کے بجائے اُنہیں دور کرنا حوصلہ مندلوگوںکا کام ہوتا ہے، مشکلات کے آگے سِپر انداز ہونا اصحابِ عزیمت کا شِعار کبھی نہیں رہا۔ میں نے وزیر آباد جاکر مظاہرین سے خطاب کیا، انہیں اپنی قیادت سے وفادار رہنے اور اُن کی ہدایات کی بجا آوری کی تلقین کی، اُن سے گزارش کی کہ کل مین جی ٹی روڈ خالی کردیںاور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تحریک لبیک کی قیادت اور کارکنان معاہدے میں طے شدہ تاریخ پر وزیر آباد میں مین جی ٹی روڈ کو خالی کرکے قریب ہی چٹھہ پارک میں منتقل ہوگئے، وہاں پرامن و پرسکون رہے، ’’لبیک یارسول اللہ‘‘ کے نعرے لگاتے رہے اور اپنے دلوں کو عشقِ مصطفی سے گرماتے رہے۔ پھر گزشتہ پیر کے دن انہوں نے وزیر آباد سے احتجاجی دھرنا ختم کیا اور پرامن طریقے سے جامع مسجد رحمۃ للعالمین لاہور کی طرف عازمِ سفر ہوگئے۔ وہاں وہ علامہ خادم حسین رضویؒ کے عرس کے انعقاد تک موجود رہیں گے، ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد ہے اور توقع ہے کہ امیر تحریک لبیک علامہ حافظ سعد حسین رضوی اس سے پہلے رہا ہوکر آجائیں گے اور عرس کے موقع پر مرکزی خطاب کریں گے۔ اس کے بعد تحریک لبیک کی مجلسِ شوریٰ اور مرکز سے لے کر صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح تک کے عہدیداران اپنی جماعتی نظم پر توجہ دیں گے، کارکنوں کی تربیت کریں گے، ان تمام مراحل اور تجربات سے کارکنوں کو آگاہ کریں گے اور سب کو اعتماد میں لیں گے۔
اسے اللہ تعالیٰ کا فضل، ختم المرسلینؐ کا فیضان، علامہ خادم حسین رضوی کا اخلاص اوران کی کرامت جانیں اور عشقِ مصطفیؐ کی حرارت سمجھیں کہ ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود ان کے جذبے بدستور جوان ہیں، میں نے وزیر آباد کے خطاب میں کہا تھا: ’’علامہ خادم حسین رضویؒ نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں عشقِ رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی ہے جس کی تابانی کبھی ماند نہیں پڑے گی اور انہیں اس طرح چارج کیا ہے کہ اب وہ ’’آٹو چارج‘‘ اور ’’سیلف اسٹارٹ‘‘ہیں، انہیں ریچارج کرنے کی ضرورت نہیں ہے، موسم کی شدّت وحِدّت بھی ان کے جذبوں کو ماند نہیں کرپاتی، شاعر نے فطرتِ اسلام کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے:
اسلام زمانے میں، دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضموں، ہم تم کو دکھا دیں گے
اسلام کی فطرت میں، قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دیں گے
مولانا الطاف حسین حالی نے کہا ہے:
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مِسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
’’مِسِ خام کو کُندن بنانے‘‘ کے معنی ہیں: ’’کچی دھات (مثلاًخام سونے) کو بھٹی میں ڈال کر اور کھوٹ نکال کر خالص اور کھرا سونا بنایا، مولانا حالی نے علم، تہذیب، شائستگی اور اعتقادِ خالص سے عاری انسان کو خام دھات سے تشبیہ دی اور یہی خام دھات جب عشقِ رسالت کی بھٹی میں ڈھل گئی تو انسانی شاہکار وجود میں آئے، چنانچہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں، ان میں سے زمانۂ جاہلیت میں جس میں کوئی جوہر کمال تھا، اسلام قبول کرنے اور حقیقت ِ اسلام کو سمجھنے کے بعدوہ انسانیت کے بہترین نفوس بن گئے، (مسلم)‘‘۔ الغرض خام کو پختہ کردیا، بے کمال کو باکمال بنادیا اور باکمال کو اوجِ کمال پر پہنچا دیا۔