بڑی معاشی منڈی ہونیکی وجی سے مغرب بھارت کے انسانی جرائم کو نظر انداز کر رہا ہے

508

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے بھارت کو اقلیتوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے‘ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا نے دہرا معیار اختیار کر رکھا ہے‘ مغربی ممالک کی جانب سے بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے کی ایک بڑی وجہ معاشی عنصر ہے‘ بھارت کے پاس اس وقت تقریباً ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی ہے جو کہ مغربی ممالک کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کی اسسٹنٹ پروفیسر رضوانہ جبیں، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ میڈیا اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر سید شجاعت حسین اور ڈی ایچ اے صفہ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروگرام منیجر سدرہ احمد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مغربی ممالک بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو کیوںنظر انداز کرتے ہیں؟‘‘ پروفیسر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ انسانی
حقوق کیا ہے؟ انسانی حقوق سے مراد وہ حقوق ہیں جو دنیا کے تمام انسانوں کو یکساں طور پر میسر ہوں‘ اس کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کے انسانوں کو امن و انصاف، زندہ رہنے اور نسل انسانی میں اضافے کا حق شامل ہے‘ ریاست میں اداروں کے ذریعے قوانین بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق آسانی سے میسر آ سکیں جبکہ بھارت کے حوالے سے اگر انسانی حقوق کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے بھارت کو اقلیتوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک قرار دیا جا چکا ہے‘ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا نے دہرا معیار اختیار کر رکھا ہے‘ مغربی ممالک کی جانب سے بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو نظر انداز کرنے کی ایک بڑی وجہ معاشی عنصر ہے‘ بھارت کے پاس اس وقت تقریباً ایک ارب 30 کروڑ کی آبادی ہے جو کہ مغربی ممالک کے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے‘متوسط طبقے کے پاس خریداری کی صلاحیت ہوتی ہے‘ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے بھارت میں متوسط طبقے کی تعداد بھی زیادہ ہے‘ مغربی ممالک اور کثیر الملکی کمپنیاں بھارت کو ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر دیکھتی ہیں حتیٰ کہ چین بھی بھارت کے معاملے میں خاموش سفارت کاری سے کام لیتا ہے کیونکہ وہ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے بھارت جیسی قریب ترین اور بڑی مارکیٹ کو کھونا نہیں چاہتا‘ مغربی ممالک اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے بھارت سے بہتر کوئی اور ملک نہیں ہے‘ بھارت نہ صرف ایٹمی طاقت ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا ملک ہے‘ امریکا نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں ممبر کے طور پر شامل کیا ہے‘ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مغربی ممالک اگر بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سوال اٹھائیں گے تو انہیں ان تمام مفادات سے دستبردار ہونا پڑے گا جو انہیں بھارت کی طرف سے حاصل ہیں جبکہ بین الاقوامی تعلقات میں ہر چیز مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سید شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی کے لیے بھی لمحہ فکر ہے کہ سپر پاور روس اور چائنا برابر میں ہیں لیکن پھر بھی بھارت جو جی چاہتا ہے وہ خاص طور پر پاکستان، کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ کر گزرتا ہے‘ یہ سب انسانی حقوق میں ہی آتا ہے‘ پہلے لوگ زمینوں پر قبضہ کرتے تھے لیکن اب دنیا تبدیل ہو رہی ہے‘ ڈیجیٹل دنیا ہو گئی ہے سب لوگ گلوبل ویلج میں آگئے ہیں تو اب وہ چاہتے ہیں کہ معاشی طریقے سے دنیا کو کنٹرول کیا جائے اور اس کی بہترین مثال اس وقت چائنا کی ہے جس تیزی سے اس نے دنیا کو کنٹرول کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے‘ بھارت کا بھی یہی معاملہ ہے‘ علاقے کی ابھرتی ہوئی معاشی اور فوجی طاقت ہے‘ بھارت دنیا کی چھٹی بڑی معاشی طاقت ہے‘ 60 کروڑ سے زاید خریداروں کی مارکیٹ ہے‘ کسی بھی ملک کو یہ معلوم ہے کہ اگر اس نے کوئی بھی چیز بنائی تو60 کروڑ تو بھارت میں بک جائیں گی‘ بھارت کے جی ڈی پی کا پاکستان سے مقابلہ کرلیں‘ پاکستان کا جی ڈی پی تقریباً 2.6 بلین ڈالر ہے جبکہ انڈیا کا 2.75 ٹرلین ڈالر سے زیادہ ہے‘ صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے لیے معاشی ترقی زیادہ اہم ہو گئی ہے‘ صارف سوسائٹی بہت بڑی ہے لوگوں کا ان سے تعلق مادی یا پیسوں کا ہو گیا ہے‘ یو ایس اے کا جی ڈی پی اب 21 ٹرلین ڈالر سے اوپر ہے اور اسی طرح چائنا کا جی ڈی پی دوسرے نمبر پر ہے جو کہ 15ٹرلین ڈالر سے زیادہ ہے‘ پھر جاپان ہے‘ اس کے بعد جرمنی اور پھر کہیں جا کر بھارت آتا ہے‘ مطلب یہ ہے کہ سب معاشی مضبوطی پر انحصار کر رہے ہیں‘ مزید یہ کہ بھارت کا کلچر بہت پرکشش ہے اور یہ کلچر پوری دنیا کی توجہ حاصل کرتا ہے‘ پھر خارجہ پالیسی دیکھیں ’’این اے ایم‘‘ کا سرکردہ رکن تھا اور نہرو کا قد و قامت بین الاقوامی تھا۔ جس کی وجہ سے بھارت عالمی افق پر ایک مضبوط جمہوری اور علم و حکمت کے ستون کے طور پر نمایاں ہوتا گیا‘ اندرا گاندھی، ڈیسائی اور واجپائی کے دور میں بھارت چمکتے انڈیا کے طور پر سامنے آیا‘ اب کمپیوٹر اور سافٹ ویئر میں دنیا کو لیڈ کر رہا ہے‘ مڈل ایسٹ پورا مسلمانوں سے بھرا پڑا ہے مگر بھارت ہر جگہ چھایا ہوا ہے‘ مسلم ممالک سے بہترین معاشی تعلقات ہیں تو وہ اس کے خلاف نہیں بول پاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا معاشی تعلق بھی ہے اور پھر بھڑکتا کلچر بھی عالمی قوتوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے‘ یہ وہ سارے معاملات ہیں جن کی وجہ سے ساری دنیا بھارت کے ساتھ ہے‘ اس لیے پاکستان اس کے مقابلے میں جب کوئی بات کرتا ہے تو دنیا اپنا سیاسی اور معاشی فائدہ دیکھتی ہے تو وہاں پاکستان کہیں بونے کی طرح چھوٹا سا نظر آتا ہے‘ مزید بھارت اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور پاکستان نے خود بھی افغانستان کے معاملات میں پھنس کر خود اپنے اوپر ایک مخصوص لیبل لگا لیا ہے‘ اب ہم اگر کوئی بات کہتے ہیں تو عالمی برادری ہماری گزشتہ 30 سال کی وجہ شہرت دیکھتی ہے جو کوئی اچھی نہیں ہے اس لیے ہماری کوئی نہیںسنتا ہے جبکہ بھارت کی بڑی معاشی مارکیٹ،امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ اور چائنا کے خلاف علاقے میں بھارت کا وجود عالمی طاقتوں کی حمایت کا باعث ہے‘ یہ وہ عوامل ہیں جس کے باعث اسرائیل کی طرح بھارت کے ظلم و ستم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ سدرہ احمد کا کہنا تھا کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور انسانی حقوق کی پامالی میں بتدریج اضافہ اپنی جگہ ہے‘ مگر یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ نریندر مودی کی حکومت کے دونوں ادوار اور اس سے پہلے مودی کے بحیثیت وزیراعلیٰ گجرات ہونے کے دوران اقلیتوں کے خلاف مظالم، دہشت گردی اور انتہا پسندی پر مغربی دنیا یکسر خاموش رہی ہے۔ یقیناً امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت کئی اہم ممالک اور عالمی و علاقائی فورمز بشمول اقوام متحدہ، یورپی یونین اور انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن وغیرہ نے متعدد مواقع پر بھارت میں خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے انتہا پسندی کے رجحان اور اس کی زد میں آنے والی اقلیتوں، خاص طور پر ہندو شودر اور دلت ذات کے لوگ اور مسلمانوں کے انسانی حقوق کے تحفظ اور معاشرے میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھانے کا تقاضا کیا ہے‘ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت میں بدترین ہندو مسلم فسادات کو کنٹرول کرنے میں ناکامی اور مجرمانہ غفلت کی بنا پر نریندر مودی کو کئی مغربی ممالک کی جانب سے داخلے پر پابندی کے علاوہ ریاستی سطح پر شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ 30 مارچ2021ء کو شائع ہونے والی امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکا بھارت میں سنگین انسانی جرائم خاص کر پولیس اور طاقتور حلقوں کی جانب سے ماورائے عدالت اقدامات، سیاسی اثر و رسوخ کے استعمال، حکومتی نمائندوں کی جانب سے انتہا پسندی کی سرپرستی اور نفرت آمیز سیاسی ہتھکنڈوں کے کھلم کھلا اظہار پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے مگر بارہا یاد دہانی کے باوجود بھارتی حکومت اور وزارت داخلہ کی جانب سے امریکی تحفظات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی‘ اسی طرح انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی2020ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بھارتی عدالت عالیہ کے حکم کے باوجود حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مشتعل، متشدد اور متعصب کارکنان کی جانب سے اقلیتوں اور غریب طبقوں پر مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی حکمران جماعت نے اس طرح کے جرائم کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات اٹھائے‘ اس امر سے اس بات کا واضح اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھارتی حکومت جو کہ آر ایس ایس جیسی کٹر ہندو نیشنلسٹ اور فاشسٹ جماعت کے تربیت یافتہ اور حلف یافتہ کارکن نریندر مودی کی سربراہی میں نفرت، تعصب اور انتہا پسندی کے فروغ کی پالیسی کے ذریعے کٹر ہندو اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے‘ بھارتی ریاست میں پھیلتے ہوئے انسانیت سوز مظالم اور جرائم کو کنٹرول کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی‘ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی طاقتوں اور انسانی حقوق کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے اعتراضات اور تنبیہ کے باوجود بھارتی حکومت انسانی حقوق کی ضمانت دینے کے اپنے جمہوری منشور پر عمل پیرا کیوں نہیں ہوتی؟ بھارتی ریاستوں اور بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں کمی کیوں نہیں لائی جاتی؟ اور بھارتی معاشرہ ایک جمہوری معاشرے سے ایک شدت پسند معاشرے میں کیوں کر تبدیل ہوتا جا رہا ہے؟ بھارت کے معاشی حجم اور امریکا جیسی سپر پاور کے لیے جنوبی ایشیا، بحر ہند اور چائنا کے مقابلے میں اہم فریق اور اہم دفاعی اتحادی ہونے کی حیثیت میں بھارت اپنے آپ کو کسی عالمی مانیٹرنگ ایجنسی اور مغربی دنیا کی کسی طاقت کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا‘ مغربی طاقتیں بھی زبانی بیانات سے آگے کبھی کسی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی کے لیے بھارت کو مجبور نہیں کرسکیں نہ ہی سنگین انسانی جرائم کی بھارتی ریاست پر کوئی پابندی عاید کر سکیں‘ بھارتی میڈیا پچھلے 74 سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم پر مسلسل اور مکمل بلیک آؤٹ جاری رکھے ہوئے ہے‘ یہ رویہ بھارت میں ہندوتوا کی تازہ اور سخت ترین لہر کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ بھارتی نیوز چینلز کی رپورٹنگ پاکستان اور مسلم مخالفت پر مبنی ہوتی ہے‘ پڑھا لکھا، باشعور، بااثر بھارتی طبقہ محض جان و عزت کے تحفظ کے خوف سے معاشرے میں پھیلتی نفرت، بدامنی اور تشدد پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے‘ مغربی طاقتیں اور مضبوط جمہوری معاشروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اس بات پر مجبور کریں کہ ایک جامع اور قابل عمل پالیسی کے تحت بھارتی فوج، پولیس، فاشسٹ سیاسی پارٹیز اور انتہا پسندوں کے ہاتھوں نشانہ بننے والی اقلیتیں اور پسے ہوئے طبقے محفوظ رہ سکیں‘ اس کے ساتھ ہی عالمی تنظیموں اور ہیومن رائٹس کمیشن کے ساتھ عالمی میڈیا اور خاص کر مسلم ممالک کے میڈیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ بار بار دکھانا چاہیے تاکہ بھارت کے ماتھے سے جمہوریت کی علمبرداری کا سہرا ہٹ سکے اور اقوام عالم کے سامنے حقائق آسکیں‘ اس کی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا ویسا ہی ڈھنڈورا پیٹا جائے جیسا بھارت اپنی نام نہاد سیکولر ڈیموکریسی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔