حماس کا اردن کے لیے ہمدردی کا پیغام

658

 فلسطینی تنظیم حماس برسوں سے عمان کی محبت حاصل کرنے کے لیے اپنی پالیسی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں فریقین کے درمیان تعلقات جمود اور بے حسی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بیس سال قبل اردن نے حماس کے دفاتر بند کردیے تھے اور تحریک کی قیادت کو بےدخل کردیا تھا۔ بیس سال بعد حماس اوراردن کے درمیان رابطے جاری ہیں۔پس چلمن جاری ان رابطوں کا اصل محرک ذاتی اور انسانی نوعیت کا ہے ناکہ سیاسی نوعیت کا۔میڈیارپورٹس کے مطابق تقریبا دو سال سے تحریک اردن کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے تعلقات کی سطح میں مثبت پیش رفت کی کوشش کر رہی ہے۔

حماس کے رہ نما عمان کو اس کے سیاسی موقف کے اعتبار سے دیگر عرب دارالحکومتوں کی نسبت زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر فلسطین کے مسئلے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطی کے لیے پیش کردہ سنچری ڈیل کو مسترد کیے جانے اور یروشلم میں اسلامی اور مسیحی مقدسات کی اردن کی ہاشمی مملکت کی نگرانی میں اسرائیلی مداخلت جیسے امور میں حماس اور اردن کے درمیان قربت پائی جاتی ہے۔

دوسری طرف اردن کی ہچکچاہٹ ان تمام کوششوں کے سامنے واضح ہے جس کا مقصد تحریک کے رہ نماں کے اردن کے دارالحکومت کے سرکاری دورے کو کامیاب قرار دینا تھا۔ تمام اعداد وشماراس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اردن کا کمپاس ابھی تک کسی بڑی کشادگی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ اس سمت میں مقامی دھاروں کے دبا کے باوجودعمان کی جانب سے خطے میں اسرائیل پر دبا کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے اور اس کے اسٹریٹجک اختیارات کو متنوع بنانے کے لیےعمان نئے اتحاد کی کوشش کررہا ہے۔یہ مطالبات اردن کی پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون اور اس کے پارلیمانی بلاک کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں لیکن عمان نے اب تک فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی علاقوں میں اہم سیاسی شراکت دار ماننے پر اصرار کیا ہے۔