لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر)مغرب کی زیر سرپرستی جنرل عبدالفتاح السیسی نے اخوان حکومت کا تختہ اُلٹا‘ مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر عرب ممالک میں اخوان المسلمون کے فوری طور پر بڑی قوت بن کر ابھرنے کے امکانات نہیں کیونکہ ابھی اسے توڑنے کا عمل جاری ہے‘ امریکا کی قیادت میں پورا مغرب اور خصوصاً عرب بادشاہت کے زیر اثر ممالک جمہوری اسلامی قوتوں کو خطرہ سمجھتے ہیں اور اس کے پارلیمنٹ میں پہنچنے میں ہر ممکن رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ، بین الاقوامی امور خصوصاً مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے ماہر، ممتاز تجزیہ نگار منصور جعفر اور سینئر تجزیہ نگار، ممتاز کالم نویس اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ کیا اخوان المسلمون مصر اور دوسرے عرب ممالک میں ایک بار پھر بڑی قوت بن کر ایک بار پھر ابھر سکتی ہے؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ پورے عالم عرب اور افریقا میں اخوان المسلمون دعوتی، تنظیمی اور تحریکی اعتبار سے بہت بڑی قوت ہے جس کا نیٹ ورک بہت وسیع اور مضبوط ہے‘ خطے میں انتخابی عمل کے دوران جہاں بھی اخوان المسلمون کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے وہ اپنا وزن ثابت کرتی ہے‘ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ہے‘ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ قوتیں جو اسلام کے نام سے خوفزدہ ہیں اور اس کے خلاف سازشوں کے ذریعے اسلامی قوتوں کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں وہ جمہوریت کے دعوئوں کے باوجود جمہوری اسلامی قوتوں کے خلاف تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں اور آمریت کی کھلم کھلا سرپرستی کرنے میں بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتیں‘ مصر کے انتخابات میں اخوان المسلمون کو بڑی کامیابی حاصل ہونے کے باوجود اس کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی آمر جنرل عبدالفتاح السیسی کی مغرب اور عرب بادشاہتوں نے بھر پور مدد کی‘ افغانستان میں بھی عظیم فتح کے باوجود شکست خوردہ بڑی طاقتیں اپنی شکست تسلیم نہیں کر رہیں اور طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کے خلاف سازشوں اور اس کے لیے مسائل پیدا کرنے میں صبح و شام مصروف ہیں‘ اس سب کچھ کے باوجود عالم اسلام کا مستقبل اسلام سے وابستہ ہے‘ عالم اسلام کی قیادت جس قدر جلد اس گمشدہ متاع کو پا لے اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہو گا اور یہی مسلم دنیا کی فلاح اور کامیابی کا راستہ ہے۔ منصور جعفر نے کہا کہ فی الحال اخوان المسلمون کے بڑی قوت بننے کے امکانات نہیں کیونکہ ابھی اسے توڑنے کا عمل جاری ہے‘ خصوصاً عرب دنیا کے مستحکم ممالک متحد ہو کر یکسوئی سے اس پر حملہ آور ہیں‘ دوسری جانب ساری دنیا کو جمہوریت کا درست دینے والے امریکا اور یورپی یونین کے ممالک مسلمانوں کی جمہوری اسلامی تحریکوں کو ’’سیاسی اسلام‘‘ کا نام دے کر اس کو ایک خطرناک فکر قرار دے رہے ہیں‘ وہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور انہیں پارلیمنٹ کے ذریعے دین کے نفاذ کی بات کرنے والے کسی صورت قابل قبول نہیں‘ عرب بادشاہتیں بھی ان سے خوفزدہ ہیں ‘بیرون ملک سے پڑھ کر آنے والے نوجوانوں کے ذہنوں کی تبدیلی اور جمہوری سوچ کو بھی یہ اپنے لیے خطرہ سمجھ کر ان پر کڑی نظر رکھتے ہیں‘ ان ممالک میں آزادی رائے نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ سوشل میڈیا تک کی سختی سے نگرانی کی جاتی ہے ‘ 2001ء میں حماس فلسطینی پارلیمنٹ کی 75 فیصد نشستیں جیت کر بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھری‘ تیونس اور الجزائر میں اسلامی تحریکوں نے بڑی جمہوری کامیابی حاصل کی۔ غزہ کے پڑوس میں مصر کی اخوان المسلمون نے صدر مرسی کی قیادت میں نہایت اہم کامیابی حاصل کی اور جاندار حکومت قائم کی مگر ان پر انقلاب برآمد کرنے اور خطے میں ایرانی اثر و رسوخ بڑھانے کے الزامات لگائے اوراس کو عرب بادشاہتوں کے لیے ایک بڑے خطرہ قرار دیا گیا‘ اس طرح جہاں بھی اسلامی تحریکوں نے انتخابی کامیابی حاصل کی‘ امریکا، یورپ اور عرب بادشاہوں نے مل کر ان کے خلاف سازشیں کیں اور انہیں چلنے نہیں دیا گیا‘ اس لیے میری رائے میں موجودہ حالات میں اسلامی تحریکوں خصوصاً اخوان المسلمون کے لیے ساز گار ماحول موجود نہیں‘ مغرب تضاد بیانی کا شکار ہے وہ مسلمانوں کی تعلیم یافتہ اکثریت سے بھی خوفزدہ ہے۔سجاد میر نے کہاکہ فوری طور پر اخوان المسلمون کے مصر اور دوسری عرب ریاستوں میں دوبارہ ایک بڑی قوت بن کر ابھرنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے‘ امریکا کی قیادت میں اتحادیوں نے ’داعش‘ کے خطرہ کے نام پر پورے خطے کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے‘ مصر، عراق، افغانستان اور شام میں وہ اپنی پالیسیوںکو آگے بڑھا رہے ہیں‘ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پسپائی کے بعد امید کی ایک کرن دکھائی دی ہے مگر ابھی اس بارے میں بھی کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ معاملات کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں‘ جہاں تک عرب دنیا کا تعلق ہے وہاں جمہوری انقلاب کا راستہ ہمیشہ روکا گیا آئندہ دنوں میں حالات کیا کروٹ لیتے ہیں اور کون کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے یہ آنے والے دن ہی بتائیں گے، ابھی اس سے متعلق کوئی حتمی بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔