کیا عورت بھی خلیفۃ اللہ ہے…؟

332

ہمیں روایتی لٹریچر میں یہ تصور ملتا ہے کہ عورت محض مرد کے لیے بنائی گئی ہے، انسانی تخلیق کا اصل مقصود تو مرد ہے اور گویا وہی خلافت کے کردار کا اہل ہے۔
سورہ الروم کی آیت 21 کو دو طرح سے سمجھا گیا ہے، اور اسی لیے دو طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے:
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی‘‘۔
’’اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور ہم دردی ودیعت کی‘‘۔
مفسر فخرالدین رازی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ایسی باتیں لکھیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بعض مسلم علما پر غیر اسلامی نظریات کے تہہ بہ تہہ انبار کتنے زیادہ اثرانداز ہوئے، وہ لکھتے ہیں:
ارشاد باری: ’خَلَقَ لَکْم‘ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتیں چوپایوں، نباتات اور دیگر سود مند چیزوں کی طرح پیدا کی گئی ہیں، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عبادت و شریعت کے لیے پیدا کی ہوئی نہ ہوں۔ لہذا ہم کہتے ہیں: عورتوں کی تخلیق ہمارے لیے بطور نعمت کے ہے اور انھیں شریعت کا مکلف اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ ہماری نعمت کمال درجے کی ہوجائے۔ جس طرح سے ہم شریعت کے مکلف ہیں اس طرح سے وہ مکلف نہیں ہیں۔ دلائل کے پہلو سے اس بات کی تائید میں یہ اور دیگر منقول دلیلیں ہیں۔ احکام کے پہلو سے دیکھیں تو عورت پر ایسے بہت سے احکام عائد نہیں ہیں جو مرد پر عائد ہوتے ہیں اور معنوی پہلو سے دیکھیں تو عورت کمزور اور کم عقل ہوتی ہے، اس پہلو سے وہ بچے سے مشابہ ہوتی ہے۔ بچہ بھی مکلف نہیں ہوتا ہے اس لیے عورت کے لیے بھی مناسب یہ تھا کہ اسے شریعت کے احکام کا اہل نہ سمجھا جائے، لیکن انھیں مکلف بنائے بغیر ہمارے اوپر نعمت مکمل نہیں ہوتی۔ انھیں اس لیے مکلف بنایا گیا تاکہ ان میں سے ہر کوئی عذاب سے ڈرے، شوہر کی مطیع وفرماں بردار بن جائے اور حرام سے دور رہے، اگر یہ نہ ہوتا تو بگاڑ برپا ہوجاتا۔ (التفسیر الکبیر)
اس ساری گفتگو کی بنیاد غلط تفسیر پر ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ اس آیت میں صرف مردوں سے خطاب ہے، حالاں کہ خطاب انسانوں سے ہے جن میں مرد وعورت سب شامل ہیں۔ خلق لکم کا خطاب اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے جب اسی آیت میں آگے وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ آتا ہے۔
اسی طرح یہ سمجھ لیا گیا کہ ازواج سے مراد بیویاں ہیں، حالاں کہ ازواج سے مراد جوڑے ہیں، مردوں کے لیے عورتیں ازواج ہیں اور عورتوں کے لیے مرد ازواج ہیں۔ اور یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ لتسکنوا کا خطاب بھی سب سے ہے مرد عورتوں سے سکون پائیں اور عورتیں مردو ں سے سکون پائیں۔
درج ذیل آیت (الفرقان: 74) میں ازواج کے اس ترجمے کا خیال کرنے سے اس کی معنویت بھی دو چند ہوجاتی ہے :
عام طور سے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے:
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘۔
اس طرح یہ خالص مردانہ دعا ہوجاتی ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ اسے مردوں اور عورتوں سب کی دعا بنا دیتا ہے:
جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ’’اے ہمارے رب، ہمیں اپنے جوڑے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ مرد کے عورت سے بہتر وبرتر ہونے اور عورت کے مرد سے کم تر وپست تر ہونے کا تصور غیر اسلامی تصور ہے۔ آج ضرورت ہے کہ مسلم مرد کی طرح مسلم عورت کے اندر بھی اونچی سوچ پیدا کی جائے۔ انھیں ان کے بلند مقام اور اس کے تقاضوں کو یاد دلایا جائے۔ ان کے اندر سے احساس کمتری کو دور کیا جائے۔ مسلم مردوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے نصب العین میں ان کے ساتھ شریک ہونے اور ان کی راہ میں ان کا مددگار بننے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ عورتوں کے سلسلے میں مسلم مردوں اور مسلم سماج کی سوچ کو بدلا جائے۔ عورت کو قابل احترام نظروں سے دیکھا جائے اور اس کی خصوصیات کی قدر کی جائے۔
مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کے درمیان تعلق کو بتانے والی قرآنی تعبیرات نہایت بلیغ اور بے بدل ہیں۔ جیسے بعضکم من بعض اور بعضھم اولیاء بعض۔ حدیث پاک کی تعبیر: النساء شقائق الرجال بھی بہت معنی خیز ہے۔ دین کا تقاضا اور وقت کی پکار ہے کہ انھیں تعبیرات کی بنیاد پر مرد وزن کے سلسلے میں اسلامی تصور کی عمارت تشکیل دی جائے۔ اسی کے نتیجے میں ایسا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جس میں عورتیں مردوں کا احترام کریں اور مرد عورتوں کا احترام کریں۔ باہمی احترام ہی اس بات کی ضمانت لے سکتا ہے کہ کسی کے اندر احساس برتری پیدا ہو نہ کسی کے اندر احساس کمتری۔