بینک میں نام زدگی کا حکم
سوال: میری والدہ نے اپنی ذاتی ملکیت سے کچھ رقم ایک تجارتی کمپنی میں لگائی ہے۔ یہ کمپنی، جسے قائم کرنے والے کچھ مسلمان ہیں، اسلامی طرز پر منافع دیتی ہے۔ والدہ نے نامزدگی Nomination میرے بھائی کے نام کیا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد کل رقم اسی کو ملے۔ کمپنی بھی رقم اسی شخص کے اکاؤنٹ میں منتقل کرتی ہے جسے Nominate کیا گیا ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں مذکورہ رقم کا مالک صرف میرا بھائی ہوگا، یا وہ تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی؟
جواب: بینک یا کمپنی میں کسی اکاؤنٹ میں Nomination کی حیثیت ’وصیت‘ کی ہے اور وصیت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ ورثاء کے نام نہیں ہوسکتی۔ موجودہ دور میں علماء نے ورثاء کے نام وصیت کی ایک صورت کو جائز قرار دیا ہے۔ وہ یہ کہ ورثاء کے حصوں کے بقدر ان کے نام وصیت کی جائے۔
صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کا مالک ان کا صرف نامزد بیٹا نہ ہوگا، بلکہ وہ تمام ورثاء میں، قرآن میں مذکور ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
٭…٭…٭
پیشاب کرنے کے آداب
سوال: میں ایک مسلم ادارے میں کام کرتا ہوں، جہاں پر مسلم وغیر مسلم اساتذہ کام کرتے ہیں۔ غیر مسلم اساتذہ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہیں۔ انتظامیہ کے کچھ ممبران نے سوچا کہ غیر مسلم اساتذہ کے لیے ایسا بیسن لگادیا جائے جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاتا ہے۔ مسلم اساتذہ نے اس پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلا خدشہ یہ ہے کہ خود مسلم بچے آج نہیں تو کل کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے عادی ہوجائیں گے، دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنی اسلامی تہذیب وآداب کا ہر موقع پر خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح کے ماحول میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے؟ براہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں۔
جواب: تعلیماتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کرتے وقت خاص طور سے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی چھینٹیں بدن اورکپڑے پر نہ آئیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ان دونوں کوقبر کا عذاب دیا جارہا ہے، وہ بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں۔ ان میں سے ایک شخص پیشاب کرتے وقت اس کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا‘‘۔ (مسلم)
اسی لیے رسول اللہؐ کا معمول تھا کہ آپؐ نرم زمین میں اور بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے۔ یہاںتک کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’جو شخص یہ بیان کرے کہ آپؐ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے اس کی با ت نہ مانو، اس لیے کہ آپؐ ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کیا کرتے تھے‘‘۔ (ترمذی)
البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے بعض مواقع پر کھڑے ہوکر بھی پیشاب کیا ہے۔ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ نے ایک گھورے کے پاس کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ (بخاری، مسلم)
علامہ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب ’زاد المعاد‘ میں قضائے حاجت کا طریقۂ نبوی بیان کرتے ہوئے ایک ذیلی عنوان یہ قائم کیا ہے: ’’کیا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا جائز ہے؟‘‘ اس کے تحت سیدنا حذیفہؓ کی مذکورہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:
’’صحیح بات یہ ہے کہ آپؐ نے ایسا احتیاط کے طور پر اور پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کے لیے کیا تھا۔ اس لیے کہ گھورے پر لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے، جس کا ڈھیر لگاہوا تھا۔ اگر ایسی جگہ پر کوئی شخص بیٹھ کر پیشاب کرے تو چھینٹیں اسی کے اوپر پلٹ کر آئیں گی، اس لیے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد)
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اسکول میں ایک ایسا بیسن لگوادینے میں کوئی حرج نہیں ہے جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاتا ہے، جب کہ ایسے استنجا خانے بھی اسکول کیمپس میں وافر تعداد میں ہوں جنہیں بیٹھ کر پیشاب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ ساتھ ہی مسلم بچوں کو قضائے حاجت کے اسلامی آداب بھی بتائے جائیں اور کوشش کی جائے کہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ ان پر عمل کریں اور غلط عادات واطوار ان میں نہ پنپنے پائیں۔