افغانستان اور امت مسلّمہ کی ذمّے داری

809

مومن مومن کا بھائی ہے ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے کسی حصّے کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم اس تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے (مسلم)
پندرہ اگست 2021 امریکا اور اس کے حواریوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں آزادی کا سورج دوبارہ طلوع ہوا امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد تمام دشمنوں کو عام معافی دے کر امارت اسلامیہ نے ساری دنیا کے جنگجوؤں کو حیران کردیا اور فتح مکہ کی اتباع کرتے ہوئے تاریخ کو ایک بار پھر سے دہرا دیا۔ دنیا میں فتح کے بعد جو انتقامی آگ بھڑکائی جاتی ہے جس میں مفتوح قوموں کے تمام مرد، خواتین اور بچّوں کو جس طرح تہہ تیغ کیا جاتا ہے اور ان کی املاک کو لوٹا جاتا ہے۔ اگرچہ دنیا کی یہ تاریخی فتح جس میں طاقت کا ایک ہولناک توازن بھی تھا۔ دوسری طرف ساری دنیا باطل کی پشت پر موجود تھی اس بیس سال پر محیط جنگ نے تو سوویت یونین جنگ اور اس کے بعد افغانستان کی فتح کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جب امریکا اور اس کے اتحادی دنیا کے اس وقت کی سپر طاقت کے خلاف افغانستان کی پشت پر کھڑے تھے اور مسلمان ممالک بھی افغانستان کو مدد فراہم کررہے تھے مگر اس جنگ میں تو۔۔۔ اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بے گانے بھی ناخوش۔۔۔ کے مصداق دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے کندھے امریکا کو پیش کرنے میں سعادت محسوس کررہے تھے، ایسے میں پاکستان کا کردار نہایت تکلیف دہ تھا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک دینی رشتہ موجود تھا اور یہ تعلقات صدیوں پر محیط تھے۔ امارت اسلامیہ نے پھر بھی ماضی کی تمام تلخیوں کو بھلا کر نئے تعلقات کا عندیہ دیا ہے۔
آج جب جنگ کی دھول بیٹھ چکی ہے صورت حال واضح ہوچکی ہے عالمی استعماری طاقتوں کی کارپٹ بمباری کے نتیجے میں جھلسا ہوا فغانستان موجود ہے اور دنیا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ جن ممالک نے جھوٹا بہانہ تراش کر افغانستان پر حملہ کیا ان ممالک ہی کو افغانستان میں ہونے والی تباہی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ یقینا اتنے بڑے جنگی جرائم کا مرتکب شاید ہی دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ہوا ہوگا۔ دنیا نائن ایلون کی یاد منائے گی مگر جس نائن ایلون میں ہونے والی تباہی کا ذمّے دارامریکا القاعدہ کو ٹھیراتا آیا ہے اس کے ٹھوس ثبوت دنیا اور طالبان کو آج بھی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اقوام متحدہ جو دنیا بھر میں اقوام عالم کے حقوق ان کے درمیان حق کے ساتھ تصفیے کا ذمّے دار ہے وہ بھی اس معاملے میں کومے میں جاچکا ہے دوسری طرف مسلمان ممالک کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے سرمائے اور وسائل سے مغربی دنیا اور امریکا میں خوشحالی ہے وہ بھی انہی کی چاکری کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں کجا کہ اپنی قوت کا اظہار کرکے ان کے خلاف اقوام عالم کے اس ادارے سے افغانستان کے خلاف جنگ لڑنے والے ناٹو ممالک کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ جنگ دنیا کی انوکھی جنگ تھی جس میں ساری دنیا یا تو ملکر ایک ملک کے خلاف جنگ لٹر رہی تھی یا خاموش تماشائی تھی کوئی ایک ملک بھی افغانستان کا حلیف نہ تھا۔ اس سے یہ ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ حق غالب ہوکر رہتا ہے مگر آج بھی دنیا کو افغانستان کی کامیابی ہضم نہیں ہورہی ہے اور اس نئی مملکت اسلامیہ کے خلاف ساری دنیا سازشیں کررہی ہے ان میں افغانستان کے اثاثے منجمد کرنا۔ پڑوسی ممالک میں فوجی اڈے کے لیے جگہ لینا۔ گزشتہ دنوں یہ خبر گردش کررہی تھی کہ پاکستان سے امریکا نے حق نمک اد ا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور پاکستان کی حکومت نے حسب سابق اس حق کو ادا کرنے کی حامی بھرلی ہے اگرچہ وزارت خارجہ نے اس دعوے کی تردید کی ہے مگر امریکا سے کوئی تردیدی بیان نہیں آیا ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ کون سچا ہے۔ لیکن بیس سالہ افغان جنگ کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہم نے امریکا کی ہر پکار پر لبیک کہا ہے جس کا خمیازہ لاکھوں جانی اور اربوں مالی نقصانات کی صورت میں دیکھنا پڑا ہے مگر یہ تو پاکستان کا نقصان ہے اس سے حکمراں طبقے کا کیا نقصان !
بدقسمتی سے پاکستان کو اب تک جتنے بھی سول اور فوجی حکمران میسر آئے ہیں ان سبھوں نے اپنے حقیر سے فائدے کے لیے پاکستان کا بڑے سے بڑا نقصان گوارا کرلیا ہے اس کی مثال سقوط ڈھاکا سے بڑی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ملک کا ایک بازو ہی اپنی انا اور حقیر مفاد کی خاطر کٹوانا گوارا کرلیا گیا۔ اس وقت بھی ایک بحری بیڑا ہماری مدد کو امریکا سے آرہا ہے مگر وہ شاید راستہ بھول گیا۔ مگر آج بھی پاکستان کے حکمران امریکا کی چاکری میں بچھے چلے جارہے ہیں۔
مذکورہ حدیث کی روشنی میں افغانستان کے معاشی حالات اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ ملت اسلامیہ اس ذمّے داری کو ادا کرے اور سب سے پہلے تو افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرے، اس کے منجمد اثاثے بحال کرانے کی جدوجہد کرے اور پھر تمام مسلمان ممالک میں بحالی افغان کے نام سے فنڈ قائم کریں جس میں مسلمان ممالک بڑھ چڑھ کر اپنا حصّہ ملائیں اور اپنی رعایا سے بھی اس فنڈ میں اپنا حصہ ملانے کی اپیل کریں تاکہ افغانستان میں جو معاشی بحران پیدا ہوا ہے اس کو ختم کیا جاسکے۔ اس صورتحال میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی صف میں کھڑے ہوکر ایک اور جرم عظیم کا ارتکاب کرنا ایک بڑی کم عقلی ہی نہ ہوگی بلکہ ایک ایسا جرم ہوگا جس کا دھبّا مسلمان ممالک اپنے ماتھے سے صدیوں میں بھی صاف نہ کرپائیں گے کیونکہ حق تو غالب ہوکر رہے گا لیکن جب حق غالب ہوگا تو مسلمان ممالک کس صف میں کھڑے ہوںگے؟ کیونکہ امارت اسلامیہ نے اپنی پالیسی واضح اور دوٹوک انداز میں دنیا کے سامنے رکھ دی ہے خواہ وہ اپنی سرزمین کے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے متعلق ہو، خواتین کے حقوق کے متعلق ہو، لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق ہو اور میڈیا کی آزادی سے متعلق ہو اور اس کی مکمل پاسداری اب تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ دنیا میں اس وقت کسی ترقی یافتہ ملک کے مقابلے میں اس نوزائیدہ حکومت میں جرائم کی شرح سب سے کم ہے۔ حکومتی رٹ اور عمل داری کا بھی اگر موازنہ کیا جائے تو جنگ کی تباہی کے باوجود آج امارت اسلامیہ کی رٹ اور حکومت کی عملداری احسن طریقے سے قائم ہے اور جو کچھ بھی دہشت گردی افغانستان میں ہورہی ہے وہ شکست کی خفت مٹانے اور اس کو مشتبہ بنانے کے سلسلے میں ہورہی ہے مگر جلد ہی امارت اسلامیہ اس پر بھی قابو پالے گی کیوں کہ بے لاگ انصاف کا نظام قائم ہوچکا ہے۔