چین کی جا نب سے گرین ہاس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اٹھا ئے گئے عملی اقدامات سے عالمی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوششوں کو فروغ ملا ہے۔نیروبی میں مقیم کینیا کے ایک ماہر اور پالیسی تجزیہ کار سٹیفن نیڈیگوا نے واضح کیا ہے کہ کچھ بڑی طاقتوں کے برعکس چین نے انگلی اٹھانے اور الزام تراشی کے کھیل سے گریز کیا ہے تاہم اس نے کم کاربن کی ترقی کو تیز تر کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کیے ہیں۔نیڈیگوا نے کہا ہے کہ مثال کے طور پر گز شتہ دس برسوں کی ایک سرسری تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی 12 کروڑ کلو واٹ تنصیب شدہ صلاحیت کو مرحلہ وار ختم کر دیا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے ژانگ جون سے اتفاق کیا جنہوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ماحولیاتی تغیرات سے نمٹنے کے لیے خالی نعروں کی بجائے پختہ عزم اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔نیڈیگوا نے کہا کہ اسکاٹ لینڈ کےشہر گلاسگو میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے فریقین کی کانفرنس (سی او پی 26) کا 6 2 واں اجلاس امیر ملکوں کے لیے ایک موقع ہونا چاہیے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اپنے مالی وعدوں کو پورا کریں تاکہ موسمیاتی شدت سے نمٹنے میں ان کی مدد کی جاسکے ۔نیڈیگوا کے مطابق چین نے تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی یا ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے اپنی ذمہ داری کے حوالے سے کبھی حیلے بہانے نہیں بنائے۔انہوں نے کہا کہ چین نے 2060 سے قبل کاربن کو ختم کرنے کی کوششوں کے دوران تقریبا 10 کروڑ کلوواٹ کی صلاحیت کے ساتھ ہوا اور فوٹو وولٹک پاور اسٹیشنز کی پہلی کھیپ تعمیر کی ہے۔