نئی دہلی: شمالی بھارت کی معروف بنارس ہندو یونیورسٹی(بی ایچ یو)میں یوم اردو کی مناسبت سے ایک آن لائن سیمینار منعقدہوا،جس منتظمین نے شاعر مشرق علامہ اقبال کی ایک تصویر استعمال کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نو نومبر کے دن ہی اقبال کا یوم پیدائش بھی ہوتا ہے اور اسی مناسبت سے اردو کے پروگرام میں عموما اقبال کی تصویر استعمال بھی ہوتی ہے، لیکن بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ طلبہ تنظیم ‘اکھل بھارتی ودھارتی پریشد( اے بی پی) کو اس بات پر سخت اعتراض تھا کہ سیمینار کے پوسٹر پر یونیورسٹی کے بانی پنڈت مدن موہن مالویہ کی تصویر کے بجائے اقبال کی تصویر کیوں لگائی گئی۔
تنظیم نے اس پر ہنگامہ کیا اور اس طرح شاعر محمد اقبال کی تصویر کو ہٹا دیا گیا، یونیورسٹی انتظامیہ نے اس حوالے سے شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر آفتاب احمد کو متنبہ کرتے ہوئے ایک توجہ دلاؤ نوٹس جاری کیا اور اس پورے معاملے کی تفتیش کا حکم دیا گیا ہے۔
تفتیش کرنے والی کمیٹی کو تین دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے، اس دوران پروفیسر آفتاب نے واقعے پر معذرت پیش کرتے ہوتے کہا ہے کہ ان کا مقصد کسی کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔
آن لائن سیمینار شاعر اقبال کی تصویر کے بغیر ہوا، اس سیمینار میں شامل ایک طالب علم نے جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ ویبینار تو ہو گیا تاہم یونیورسٹی میں اس حوالے سے اب بھی ہنگامہ جاری ہے اسی لیے وہاں میڈیا کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
انہوں نےکہا کہ بھارت میں بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد اقبال پاکستان چلے گئے تھے جبکہ اقبال کا انتقال تقسیم سے کافی پہلے سن 1938 میں ہی ہو گیا تھا۔
طالب علم کا کہنا تھا کہ ہم اقبال کے بارے میں ایک شاعر اور ادیب کی حیثیت سے پڑھتے ہیں، جنہوں نے ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستان’ جیسا قومی ترانہ لکھا تھا۔”ان کا کہنا تھا کہ ان کی شاعری کے بارے میں تو ہندی یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ “ولیم شیکسپیئر کو پڑھ کر کوئی برطانوی نہیں بن جاتا ہے۔ اقبال نے تو اپنی شاعری میں بھگوان رام کو امام ہند کہا ہے۔
طالب علم نے کہاکہ “اقبال کا ترانہ ہندی’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا’ بھارتی پارلیمان میں بھی گایا جاتا ہے اور بہت سے رہنما کئی بار اپنے خطاب میں ان کے اشعار کو استعمال بھی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سخت گیر ہندو تنظیمیں ان کو پاکستان نواز سمجھتے ہیں اور انہیں پسند نہیں کرتے۔آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم نے اس حوالے سے یونیورسٹی کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں پاکستانی رہنما کی قصیدہ خوانی قابل افسوس بات ہے۔