آٹھواں آسمان اور زمینی خدا

875

ہمارے ملک میں عام آدمی کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اور جو آہ و بکا وہ کرتا ہے، اُس کی شنوائی کہیں نہیں ہوتی، شاید ملک میں ایک ہی ایسا شخص مجھے نظر آیا جس کو اس عام آدمی کا ادراک ہے، وہ ہے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد انہوں نے عام آدمی کی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے عام لوگ اتحاد کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنا تو لی ہے مگر اُس میں عام لوگ کم اور خاص لوگ زیادہ ہیں۔ اُمید ہے آگے چل کر اُن کو مخلص لوگ مل جائیں، ہمارے ملک میں ایک ہی ایسی جماعت ہے جو عام آدمی کے مسائل کی جنگ لڑ رہی ہے، وہ ہے جماعت اسلامی۔ اس کے علاوہ مجھے اور کوئی نظر نہیں آتا۔ عام آدمی کی تو پی ٹی آئی میں بھی کوئی عزت نہیں۔ عام آدمی کہاں جائے کون اُس کی مشکل حل کرے گا، یہ ایک بہت بڑا سالیہ نشان ہے؟۔ پیدائش کے مرحلے، اسپتال، زچہ خانہ سے لے کر بچے کی تعلیم، اُس کی تربیت، پرائمری اسکول، سکینڈری اسکول اور اگر کوئی قسمت کا دھنی ان سارے مراحل سے گزر گیا تو نوکری کا مسئلہ، ہر قدم پر سفارش، رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا، پھر تلاش اُس بندے کی جو رشوت لے کر کام کرادے۔ اسپتالوں میں لمبی لمبی قطاریں، دوا کا خرچ، اسکولوں میں داخلے کا مسئلہ، داخلہ ہوجائے تو اخراجات کے مسائل، زمین جائداد، لین دین کے تنازعے، تھانہ پولیس، عدالت کہاں سے عام آدمی کی داد رسی ہوگی کچھ پتا نہیں۔ کھیت سے فصل تیار ہوجائے تو آڑھتی یا مالک پیسے نہیں دیتا۔ اُدھار دے دو تو واپس نہیں ملتا۔
کسی سرکاری افسر کو اگر سائل سے نہیں ملنا سائل نہیں مل سکتا، کیوں کہ چوکیدار یا سیکورٹی کا آدمی صاحب کے گھر میں جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اگر اُن کے دفتر چلے جائیں تو اول تو آفس کے اندر داخل ہی نہیں ہوسکتے۔ اگر آفس میں داخل ہوگئے تو صاحب کے کمرے میں کیسے جائیں؟ سرکاری دفتر میں اگر کوئی کام ہے تو پہلے تو گیٹ پر اپنا اصل شناختی کارڈ رکھوائیں پھر جس سے کام ہے اس سے گیٹ پر سیکورٹی کا انچارج بات کرکے آپ کو اندر جانے کی اجازت دے گا اور اگر صاحب نے منع کردیا تو آپ گیٹ سے باہر اور اگر کسی طرح کچھ لے دے کر آفس پہنچ گئے تو پہلے چپراسی پھر پی اے، پھر سیکرٹری جب کہ یہ سب کے سب عوام کے ملازم یا افسر ہیں۔ ان کو تنخواہ بھی عوام ہی کے پیسے سے ادا کی جاتی ہے۔
یہ آج کے زمینی خدا… شداد، فرعون اور نمرود سے بھی بدتر ہیں کیوں کہ ان کے دربار میں لوگ جا تو سکتے تھے لیکن ہمارے ملک کے بڑے افسر، بڑے دولت مند اور بااختیار سے آپ مل ہی نہیں سکتے۔ ان زمینی خدائوں میں ہر وہ آدمی شامل ہے جس کے پاس دولت، رتبہ اور شان و شوکت ہے۔ ان میں بڑے، چھوٹے، سول سرکاری اور فوجی افسران، صنعت کار، تاجر، وزیر، سفیر، ایم این اے، ایم پی اے، مشیر، ڈاکٹر، وکیل، صحافی، ٹی وی اینکر وغیرہ غرض وہ پاکستانی شامل ہے جس کے پاس کچھ طاقت اور رتبہ ہے۔ ان کے پاس آپ اور مجھ جیسا آدمی نہیں پہنچ سکتا۔ ہر عام آدمی کی پہنچ صرف اللہ تک ہوتی ہے۔ وہ گڑگڑا کر اس سے مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ جو ساتویں آسمان پر ہوتے ہیں سنا ہے وہ اپنے بندوں کی صدائیں سنتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول کرتے ہیں۔ جب کہ یہ زمینی خدا… آٹھویں آسمان پر رہتے ہیں یاد رکھیں۔ ساتویں آسمان تک تو آپ اپنی فریاد پہنچا سکتے ہیں لیکن آٹھویں آسمان پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ آٹھویں آسمان پر بیٹھی یہ مخلوق ان کی بیگمات اور اولاد، غرور و تکبر، بدمزاجی اور بے ہودگی کی آخری اونچائی پر رہتی ہے اور آٹھویں آسمان سے نیچے زمین پر بھی نہیں آتی بلکہ سیدھی قبر میں چلی جاتی ہے۔ لیکن جب تک زندہ رہتی ہے اس کی اکڑ برقرار رہتی ہے۔ اور وہ برملا یہ کہتے ہیں۔ بعدازمرگ جو ہوگا سو ہوگا، دنیا تو عیش و آرام کے لیے ہے۔
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دربارہ نیست
آخر میں سبق سن لو اے ابن آدم: یہ زمینی خدا گنبد بے در سے کس طرح گرتے ہیں اور کس طرح غرق دریا، دفن زمین یا آگ یا ہوا میں تحلیل ہوتے ہیں۔ یہ نشان عبرت ہیں لیکن پھر بھی لوگ سبق حاصل نہیں کرتے، شاید مرتے وقت احساس ہوتا ہو۔ لیکن نظام قدرت ہے کہ وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اس وقت کوئی دعا، کوئی التجا قبول نہیں ہوتی۔ فرعون غرق ہوا، نمرود کی موت مچھر کے ناک میں گھسنے سے ہوئی، شہنشاہ ایران اپنی جان و مال ملکہ سوم اور تخت کے وارث کو لے کر پوری دنیا میں رہنے کی جگہ کے لیے مارا مارا پھرتا رہا۔ اپنے اچھے وقت کے حاکموں، دوستوں سے درخواست کرتا رہا لیکن اس کو رہنے اور دفن ہونے کے لیے زمین ملی تو وہ فرعون ہی کی سرزمین ملی۔
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے