غریب متوسطہ طبقہ نا اُمیدی کا شکار

669

یہ تو طے پاگیا ہے کہ غریب عوام کو اپنے بنیادی حقوق کے لیے ایک بار پھر اگلے عام انتخابات کا انتظار کرنا ہوگا کہ شاید کوئی مخلص دیانتدار روز آخرت جوابدہی کا خوف رکھنے والی قیادت ان کا حق ان کو مہنگائی، بے روزگاری، علاج، تعلیم، انصاف کی بہتر فراہمی کی صورت میں دے سکے ایک بار پھر وہ ہی پرانا راگ الآپتے ہوئے کہ پچھلے حکمران چور ڈاکو نااہل نالائق تھے جن کی وجہ سے آج ہم مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئے ہیں ایک بار پھر غریب عوام پر بجلی اور پیڑول بم گرا دیا ہے اور یقینا 2022 تک مہنگائی عروج پر ہوگی جس پر قابو پانا کسی صورت ممکن نہیں ہوگا خان صاحب کی پہلی حکومت نے ماضی کی کرپٹ حکومتوں سے زیادہ اس قوم کو مایوس کیا ہے۔ ۱۰۰ دن میں کرپشن کا خاتمہ، لوٹی دولت کی واپسی، شفاف احتساب کے ذریعے کرپٹ عناصر کو سزائیں، غریب کی زندگی میں ترقی وخوشحالی کے دعوے اداروں میں بہتر وموثر اصلاحات، برابری کی سطح پر صوبوں کے مسائل کا حل، مگر افسوس خان حکومت ایسا کچھ بھی نہ کر سکی کہ جس کی بنیاد پر عوام ان کو اگلے انتخابات میں ایک بار پھر برسر اقتدار لانے کی کوشش کریں۔
کچھ سمجھ دار لوگ کہتے تھے کہ عمران خان کو ایک بار وزیر اعظم بنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے آج وہ ہی ذ ہین لوگ سراپا احتجاج ہیں کہ یہ موقع خان صاحب کو کیوں دیا گیا یقینا ماضی میں بھی عوام کو مہنگائی بے روزگاری کے مسائل کا سامنا تھا اور آج تبدیلی سرکار کے تین سال پورے ہوجانے کے بعد بھی یہ قوم مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ یقینا ماضی کی کرپٹ حکومتوں نے اس ملک کے منافع بخش اداروں کو بے دردی سے لوٹا اور ان اداروں کو مفلوج بنا کر نج کاری کی جانب دھکیل کر ملک کو کھربوں روپے کا چونا لگایا ان کالے کرتوتوں کی بنیاد پر ملک اور بیرون ملک ناجائز اثاثے بنائے گئے، آج قوم کو مہنگی بجلی کا سامنا صرف اس لیے ہے کہ ماضی میں مہنگی بجلی کے معاہدے کیے گئے۔آج کوئی تبدیلی ہمیں نظر نہیں آتی موجودہ حکومت کو بھی وہی نواز شریف وہی زرداری کا طرز حکمرانی پسند ہے جس کو کرپٹ نظام کہتے تھے۔
کل بھی یہ قوم مقروض تھی آج زیادہ مقروض ہوگئی ہے کل بھی غریب کو مہنگائی بے روزگاری کا سامنا تھا آج پہلے سے زیادہ ہے کل بھی تعصب کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم تھی آج تو انتہا کر دی گئی ہے۔ اس شہر کا نوجوان خان صاحب کی حکومت سے نااُمید ہوکر کسی دوسرے حکمران کا منتظر ہے۔ اب صرف دو سال کی مدت خان صاحب کی حکومت کے پاس ہے جس میں اگر خان صاحب غریب عوام کے مسائل کو حل نہیں کر سکے تو یقینا خان صاحب کا سیاسی مستقبل بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح مشکوک ہوجائے گا اور پھر عوام تینوں جماعتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں گے۔
آج ملک کا ایک بڑا حصہ غریب اور متوسطہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے اپنے بڑھتے مسائل کی وجہ سے نااُمیدی کی جانب بڑھ رہا ہے اور بد قسمتی سے کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا جو اس غریب طبقے کے درد کو اپنا درد سمجھ کر حل کرنے کی ہمت کر سکے۔ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز کا پاکستان بنانے کے دعوے سے تو ہٹ چکے ہیںمگر نیا پاکستان بنانے میں بھی ناکام نظر آرہے ہیں ٹھیک ہے تبدیلی راتوں رات نہیں آتی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی وخوشحالی کی سمت ضرور دکھائی دیتی ہے یہ قوم بد قسمتی سے کل بھی اپنے مسائل کے حل کی منتظر تھی اور آج بھی یہ بد بخت قوم اپنے مسائل کے حل کی آس لگائے بیٹھی ہے مگر شاید اس ملک کے حکمران روز آخرت جوابدہی کے خوف سے بے نیاز ہیں شاید ان نااہل کرپٹ حکمرانوں کو روز آخرت بھی این آر او کی اُمید ہے مگر اُس عدالت سے ان کو این آر او تو کسی صورت نہیں مل سکتا البتہ جہنم کی آگ کے ویزے پرمٹ ضرور ان کو مہیا ہوں گے۔