آخری حصہ
آر ایس ایف پر رواں برس 3 جون کے خونیں واقعات میں ملوث ہونے کے الزام سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے کیونکہ عبوری حکومت ان واقعات کی تحقیقات کا مینڈیٹ لے کر آئی تھی تاکہ خونریزی کے ذمے دار عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔ فورسز فار فریڈم اینڈ چینج نے اس معاہدے کی تائید ضرورت نہیں بلکہ سابق حکومت کے حامیوں کے خوف سے کی تھی۔ اگست 2019 کے معاہدے کی پہلی ترجیح عمر البشیر کے حامیوں کا بالخصوص اور اسلام پسندوں کا بالعموم قلع قمع کرنا تھا مبادا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں لوٹ آئیں۔اس معاہدے کے تحت جنرل عبدالفتاح البرہان کو اگلے ماہ خود مختار کونسل سے سبک دوش ہو جانا تھا۔ معاہدے کے مطابق اس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمائندے کو سربراہ مملکت بننا تھا جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔ ان میں ایک بڑا نکتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنا تھا۔ یاد رہے کہ سوڈان کی حکومت ماضی میں وعدہ کر چکی تھی کہ وہ سابق صدر عمرالبشیر کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کے حوالے کر دے گی۔ لیکن جنرل البرہان اور پارلیمان کی ریپِڈ سپورٹ فورسز کے جنرل محمد حمدان سمیت، سابق صدر عمرالبشیر کے تمام ساتھیوں کی خواہش رہی ہے کہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سوڈان ہی میں مقدمہ چلایا جائے۔ سابق صدر کے ان ساتھیوں کا یہ خوف بجا تھا کہ اگر عمرالبشیر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کر دیا گیا تو وہ دارفور کی لڑائی میں کیے جانے والے مبینہ مظالم کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کا نام بھی لے لیں گے۔ جنرل البرہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی دامن گیر رہا کہ اگر 2019 میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا تو اس سلسلے میں بھی ان ہی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔ خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوا تھا جب پرامن مظاہرین ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جرنیلوں کو اس بات نے بھی پریشان کر دیا تھا کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔
ان ترجیحات کے ساتھ عبوری دور میں طے پانے والے معاہدے غیر معمولی حالات کا سبب بننے لگے۔ ان معاہدوں کے بعد فوج اور فورسز فار فریڈم اینڈ چینج کے مابین تہہ در تہہ عدم تحفظ اور پیچیدہ باہمی انحصار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔ کسی بھی سویلین حکومت یا فریق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بنیادی معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ملنے والا مینڈیٹ پوری طرح نافذ کر سکیں۔ سوڈان میں سول حکومت کے لیے فوج کی یہ حمایت مفقود رہی۔ نیز معاہدے میں خود مختار کونسل میں شامل عسکری نمائندوں کو چادر سے باہر پاؤں پھیلانے سے روکنے کا بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کونسل کے سربراہ جنرل البرہان نے سوڈان کے ’ڈی فیکٹو‘ سربراہ کے طور پر اختیارات استعمال کرنا شروع کر دیے۔ جناب حمیدتی سویلین گورنمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ تھے اور باغی جتھوں سے معاملات طے کرنے کے لیے بزعم خود اعلیٰ مذاکرات کار بن بیٹھے۔ فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل، امن وجنگ کے معاہدے کرنا شروع کر رکھے تھے۔ سول کابینہ کو بتائے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ دراصل سب سے زیادہ قابل اعتراض بات تھی۔ گزشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا ہے بلکہ فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے اور انہیں اکثر ٹھیکوں میں کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔ جس بحران کے نتیجے میں عبداللہ حمدوک کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اس کی ایک اور وجہ فورسز فار فریڈم اینڈ چینج کی صفوں میں انتشار بھی بتایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ انتشار کا باعث دارفور کے بااثر فریق بنے۔ بیجا قبائیلوں نے سیاسی معاہدوں میں عدم شمولیت پر احتجاج کرتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ بند کر دی جس نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کیا تو جولائی کے مہینے میں انہوں نے خوف کے عالم میں کابینہ میں رد وبدل کی، لیکن وہ بھی ان کے کام نہ آئی۔ سوڈانی فوج اس لحاظ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک دوسرا فریق ماضی میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کرتا رہتا اور ساتھ ہی وہ فوج سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کرتا دکھائی دیا۔ حمدوک حکومت نے فوج کو ہدایت کی کہ وہ بیجا کے قبائیلیوں کی جانب سے بندرگاہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں لیکن فوج اس دوران وزیر اعظم کا بوریا بستر گول کرنے کا پلان تیار کر چکی تھی اس لیے انہوں نے کمزور سیاسی حکومت کا حکم ماننے انکار کیا۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ حکومت کے عبوری دور کے اگلے مرحلے میں فوج کو باقاعدہ سویلین کنٹرول کے تابع لایا جائے گا۔ لیکن اب طاقت کے بل بوتے پر غیرآئینی قبضہ کر کے جنرل البرہان ایک بڑا جْوا کھیل چکے ہیں۔ وہ سوڈان کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے پاس معیشت، جمہوریت کی بحالی اور ملک میں امن جیسے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے اور یوں وہ ملک کے اندر افراتفری اور قتل وغارت جبکہ ملک کے باہر مکمل تنہائی کا خطرہ مول لے چکے ہیں۔ فوج نے 2019 میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو بری طرح کچلا تھا تو اس وقت امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار رکنی اتحاد نے پس پردہ رہتے ہوئے افریقی یونین کے توسط سے مذاکرات کے ذریعے ایک حل نکال لیا تھا۔ شاید سوڈان کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے اس مرتبہ بھی اسی قسم کی کوشش کی ضرورت ہے۔ سوڈان میں سعودی سفیر علی بن حسن جعفر کی معزول وزیراعظم عبداللہ حمدوک سے ملاقاتوں کی خبروں کے بعد کسی بریک تھرو کی امید کی جا سکتی ہے، لیکن حالیہ واقعات کے بعد اب جنرل عبدالفتاح البرہان پر کون اعتبار کرے گا؟
(بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو)