سوڈان میں فوجی بغاوت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

345

مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر ’عرب بہار‘ کے بعد خطے میں جو بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ان میں سے کچھ تبدیلیاں تو وقتی ثابت ہوئیں اور مصر جیسے ممالک اب اسی مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ’تبدیلی‘ کا عمل شروع ہوا تھا۔ عرب اسپرنگ یا بہار سے متاثر ہونے والے ممالک میں شام بھی اہم منزل رہا ہے، جہاں ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ بیرونی عناصر کی شمولیت تھی۔ عوامی بے چینی کی نئی لہر میں کیا اب سوڈان بھی بیرونی عناصر کا ایک نیا اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟ شام کے ساتھ سوڈان کے حالات کا موازنہ شاید قیاس مع الفارق والی بات ہو، لیکن مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی پہلی مہم میں نظر آنے والی بعض نشانیاں سوڈان میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ سوڈان میں 25 اکتوبر کو فوج نے اس خود مختار کونسل پر شب خون مارا جس کے ساتھ عسکری قیادت نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کے مطابق روز افزوں سیاسی کشیدگی نے سوڈان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اسی لیے انہیں فوج کو بیرکوں سے باہر نکالنے جیسا انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔
ماضی میں مصر کے اندر ڈاکٹر محمد مرسی مرحوم کی منتخب حکومت کے خلاف عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کو تو امریکا اور مغربی ممالک نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جبکہ سوڈان میں ہونے والی فوجی اکھاڑ پچھاڑ پر یہی ممالک فوجی جنتا کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔ خرطوم میں قید شہریوں کی رہائی اور ان کی اقتدار میں واپسی کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ سوڈانی فوج کے اقدام کو ملک میں پزیرائی ملی اور نہ ہی بین الاقوامی طاقتوں نے اس کی حمایت میں زبان کھولی۔ یہی وجہ سے کہ سوڈان کے طول وعرض میں مظاہرے ہونے لگے، جن پر فوج نے گولیاں برسائیں۔ فوجی بغاوت کے بعد سوڈان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران آج خود ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عبوری سیاسی نظام کی بے قاعدہ بُنت اور اس کے کرتا دھرتاؤں کا پیچیدہ باہمی تعلق ہے۔ حالیہ عبوری سیاسی انتظام کا آغاز لمبے عرصے تک سوڈان پر حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کو 2019 میں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے والی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہوا۔ ماضی میں بھی سوڈان کے اندر کئی مرتبہ ایسے ہی پیچیدہ عبوری سیاسی بندوبستوں کے ذریعے ملکی نظام چلایا جاتا رہا، تاہم موجودہ عبوری سیٹ اپ کی مدت گزشتہ تمام عبوری ادوار سے لمبی ثابت ہوئی۔
یادش بخیر! 1953-55 کے دوران سوڈان، تاج برطانیہ کی نو آبادی کے طور پر بھی ایک عبوری سیاسی انتظام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اس سیاسی انتظام کی ابتدا ایک انتخاب کے ذریعے ہوئی جس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت نے ’خود اختیاری کا قانون مجریہ 1953‘ منظور کیا۔ اس قانون کی روشنی میں منتخب ایوان اور کابینہ کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی، تاہم ریاست کی سربراہی برطانوی گورنر جنرل کرتے رہے۔ اس قانون کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کیا جانا تھا کہ سوڈان کا الحاق مصر سے ہو گا یا پھر یہ ایک مکمل آزاد ملک کے طور پر براعظم افریقا کے نقشے پر طلوع ہوگا۔ عبوری سیاسی بندوبست کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ نے ریفرینڈم کے بغیر ہی سوڈان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لی۔ خود اختیاری کے قانون کو جلد ہی سوڈان کی آزاد ریاست کے دستور کا درجہ حاصل ہوگیا۔ ملک کا انتظام چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی جگہ پانچ رکنی خودمختار کونسل نے لے لی۔ بعد ازاں 1964 کے انقلاب کے وقت بھی خود مختار عبوری کونسل کا آزمودہ فارمولا کام آیا۔ اس انقلاب میں میجر جنرل ابراہیم عبود کے اقتدار کی بساط لپیٹی گئی تھی۔ آگے چل کر 1985 میں سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو بھی ایسی ہی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
ان تاریخی انقلابات (بغاوتوں) میں عبوری حکومتیں راتوں رات تشکیل پاتی رہیں جبکہ حال ہی میں اپنے انجام کو پہنچنے والا عبوری سول انتظام نو مہینوں کی صبر آزما جدوجہد کے بعد تشکیل پایا۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات سوڈان کے ماضی کے بیانیے سے ہر لحاظ سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ عمر البشیر اور سوڈان کی پیپلز لبریشن موومنٹ/آرمی کے درمیان 2005 میں طے پانے والے ’جامع امن معاہدے‘ سے ملک کے جنوب میں جنگ کے بادل چھٹے اور اس کی روشنی میں جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کا ٹائم ٹیبل طے پایا۔ یہی معاہدہ آگے چل کر 2005 میں بننے والے سوڈانی دستور کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا جس میں اختیارات کی تقسیم سمیت شہری اور انسانی حقوق پر بہت زور دیا گیا تھا۔ چھے سالہ عبوری دور بہت اچھا گزرا، اگرچہ کہیں کہیں ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے میں آیا لیکن معاہدے کے نتیجے میں امن، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی بحالی اور سیاسی جماعتوں کے احترام کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔
اس معاہدے سے دارفور میں 2003 سے جاری جنگ تو ختم نہ ہو سکی، تاہم سوڈانی معاشرے میں مذہب، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم اور جمہوری شراکت جیسے اصولوں سے متعلق سوچ بچار کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔ جامع امن معاہدہ مطلق العنان عسکری اختیارات رکھنے والی دو جماعتوں کے درمیان تھا جس میں ان کو اقتدار میں شراکت کے ساتھ تیل کی آمدن کو بھی باہم تقسیم کرنا تھا۔ فریقین کو اپنا مکمل بااختیار علاقہ ترتیب دینے کا حق حاصل تھا خواہ اس کے لیے انہیں انتخابات میں جھرلو چلانا پڑے۔ جنوبی سوڈان کی علٰیحدگی کے بعد دونوں علاقوں میں جنگ چھڑ گئی۔
جنوبی سوڈان کی ملک سے علٰیحدگی کے موقع پر بعض سیاسی مبصرین جامع امن معاہدے کا موازنہ فلسطین سے متعلق اوسلو معاہدے سے کرتے دکھائی دیے۔ فریقین پرامید تھے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے اعتماد سازی کے مراحل طے ہوتے ہی بڑے متنازع امور بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے، لیکن شومی ٔ قسمت یہ خواب نہ فلسطین میں شرمندۂ تعبیر ہوا اور نہ ہی سوڈان میں ایسا ہو سکا۔
ایتھوپیا کی مدد اور افریقی یونین کی ثالثی میں اگست 2019 کو فوجی کونسل اور سویلین تنظیموں کے اتحاد فورسز فار فریڈم اینڈ چینچ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ایسی ہی خامیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ جامع امن معاہدے کی طرح اس معاہدے پر بھی فریقین کے درمیان پائے جانے والے تنازعات اصل مقصد پر حاوی ہونے لگے۔ اگست 2019 کو طے پانی والی دستوری دستاویز میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے فوج کے تابع ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نامی قبائلی ملیشیا کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسے سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دقلو (حمیدتی) خود مختار کونسل کے نائب صدر بن گئے اور عبوری بندوبست میں یہ ملیشیا دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتے ہوئے ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ ریاست کے اندر ریاست بنی بیٹھی ملیشیاؤں کی موجودگی میں جمہوریت کا خیال یقینا محال است والی بات ہے۔
(جاری ہے)