حال ہی میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 3 ارب ڈالر نقد اور 1.2 ارب ڈالر کا تیل فراہم کرنے کے اعلان کے روپے کی قدر پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اور پاکستانی کرنسی کی گھٹتی ہو قدر بڑھ گئی۔ انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مضبوطی دیکھنے میں آئی۔ جبکہ سونے کے نرخوں میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔ موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے۔ اگر ملک میں معاشی ڈسپلن ہوجائے تو پاکستانی میں کثیر بیرونی سرمایہ کاری ممکن ہے۔ عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ صرف ملک کی بنی ہوئی اشیاء خریدیں۔ آج ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی لاگت اور قیمت درآمدی قیمت سے زیادہ ہے، اس کی وجہ غیرضروری ٹیکس اور توانائی کی قیمت ہے۔ اگر ہم بازاروں میں جائیں تو آپ فرنیچر، باتھ ٹائلز، چاکلیٹ، بسکٹ، کپڑے اور نجانے کیا غیرضروری اشیاء درآمد شدہ ملتی ہیں۔ اگر ان کو بند کردیا جائے تو نہ صرف زرِ مبادلہ کی بچت ہوتی ہے بلکہ ملک میں بھی ان کی پیداوار بڑھے گی۔ اس طرح ہماری جی ڈی پی میں اضافہ ہوگا۔ صدر ایوب خان کے دور میں کوئی ایسی شے بیرونِ ملک سے درآمد نہیں ہوتی تھی جو ملک میں بنتی ہو۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ صرف وہی چیز ملک میں بنتی ہے جو درآمد نہ ہوسکے۔ اس امپورٹڈ کلچر نے معیشت کا ستیاناس کردیا ہے۔
افسوس کہ معاشی معاملات کو معاشی کے بجائے سیاسی طور پر لیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط بھی کڑی ہیں، ان شرائط پر من و عن عمل کرنے کی صورت میں ملک کی جی ڈی پی مزید گرسکتی ہے اور قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی۔ اس طرح لوگوں میں بھی بے چینی بڑھے گی۔ ہمیں اگر درآمدات میں کمی درکار ہے تو ان پر ویسے ہی پابندی لگادی جائے یا اس پر بہت زیادہ درآمدی ڈیوٹی لگادی جائے تو اس طرح ٹیکس کی شرح میں اضافہ ممکن ہوکر ملکی معیشت کے لیے سودمند ثابت ہوگا۔ موجودہ معاشی چیلنج کی بنیادی وجہ تمام ضروری اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ فورسز کو یوٹیلیٹیز، خصوصی طور پر ایندھن اور بجلی کی قیمتوں کی آڑ میں من مرضی سے قیمتیں بڑھانے کی مکمل آزادی ہے۔ عام سرکاری وضاحت یہ ہوتی ہے کہ ایندھن، پام آئل اور دیگر اشیاء جو درآمد کی جاتی ہیں کی مقامی قیمتیں بین الاقوامی منڈیوں میں ان چیزوں کی قیمتوں پر مبنی ہوتی ہیں، جہاں یہ مصنوعات مہنگی ہوچکی ہیں۔ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ایندھن اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاء پاکستان میں پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں اب بھی سستی ہیں۔ ان دلائل میں کچھ سچائی ہے، تاہم کسی ملک کی سیاست کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ دوسرے ممالک کی قیمتوں کی فہرستیں نہیں بلکہ قیمتوں میں اضافے کے اکثریتی آبادی پر سماجی و معاشی اثرات ہیں۔ آیا معاشی تفاوت بڑھا ہے یا لوگوں کے پاس قیمتوں میں اضافے کو برداشت کرنے کی مالی صلاحیت ہے؟ پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی ناہمواری پہلے ہی بہت زیادہ ہے، قیمتوں میں اضافے نے اس عدم مساوات کو بڑھادیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے تناسب سے لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ نہیں ہوا، جس سے ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ کورونا کے پھیلائو اور صنعت کے وسعت اختیار نہ کرنے نے روزگار کے مواقع کم کردیے ہیں۔ مختلف حکومتی فلاحی منصوبوں، جیسے احساس پروگرام اور قرضوں یا مراعات کے حصول کے لیے مختلف کارڈوں نے آبادی کے ایک حصے کو کچھ ریلیف فراہم کیاہے، لیکن عام لوگوں کو جس مجموعی معاشی بحران کا سامنا ہے، یہ اس کا متبادل نہیں ہوسکتے۔
غیرسرکاری سطح پر کچھ فلاحی سرگرمیوں نے آبادی کے غریب طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کیا ہے۔ تاہم سرکاری اور غیرسرکاری خیراتوں پر انحصار کرنے والی معیشت، قابل اعتماد معیشت نہیں ہوسکتی۔ ر وزگار کے مواقع بڑھانے اور نجی شعبے کے کاروبار اور صنعتی سرگرمیوں کے لیے ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں پر اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو بنگلا دیش اور بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہے، ان کی برآمدات میں ہر سال 10 سے 15 فی صد اضافہ ہورہا ہے۔ دراصل برآمدات بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار بڑھائیں اور عوام کو یہ حسب ضرورت، سستی اور بغیر کسی مشکل سے ملیں تو معاشی بحران پر آسانی سے قابو پانا ممکن ہوسکے گا اور عام آدمی کو ریلیف بھی مل سکے گا۔ ملک میں ڈیمز بننے سے زمین سیراب ہوگی تو کئی دیہات آباد ہوجائیں گے اور بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور پانی کی کمی نہ صرف دور ہوجائے گی بلکہ ماہرین کے مطابق تقریباً 2کروڑ ایکڑ زمین آسانی سے آباد ہوسکتی ہے جس سے خوراک وافر مقدار میں پیدا ہوگی۔ پیداواری لاگت انتہائی کم ہوگی کیونکہ اس وقت تھرمل بجلی کئی گنا مہنگی ہے۔ عام لوگوں کے لیے معیشت کو بہتر بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مارکیٹ فورسز کو فی الوقت حاصل مکمل آزادی کو کم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان فورسز میں کمرشل اشرافیہ، خاص طور پر مڈل مین اور بڑے کاروباروں کی تنظیمیں شامل ہیں جو قیمتوں اور مارکیٹ میں سامان کی فراہمی کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اسی طرح مارکیٹ کمیٹیاں، جو بااثر کاروباری افراد پر مشتمل ہیں، قیمتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انہیں اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کی آزادی نہیں دی جانی چاہیے۔ اسی طرح کچھ تھوک فروش اور خوردہ فروش روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ قیمتیں ان لوگوں نے بڑھائی ہیں جو انہیں یہ سامان سپلائی کرتے ہیں۔ صارفین کے پاس ان کے بیان کی سچائی کو چیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مارکیٹ فورسز قیمتوں میں اضافے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں کیونکہ سب کا مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ ملک میں ایک اور بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا خسارہ ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اسٹیل مل اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں خسارے میں ہیں۔ ان تمام اداروں کو منافع بخش بنانے کے لیے ضروری اقدامات کی ضرورت ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خسارے میں چلنے والی تقسیم کار کمپنیوں کے بجائے منافع والی کمپنیوں کو نجی شعبے کو دیا جارہا ہے، اس طرح سے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ ملک میں جرأت مندانہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر ڈیم بنائے جائیں۔ معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اسے سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ صرف سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آج معیشت تباہ حال ہے۔ اگر ہم نے اپنی معیشت کو سنجیدگی سے اور جرأت مندی سے نہ چلایا تو حالات بگڑ سکتے ہیں۔ آج بنگلا دیش اور ویت نام بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ کل اور بہت سے ممالک بھی ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں، اس لیے معاشی سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔