اہلِ خانہ کی تربیت اور تقاضے

518

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو جس کے ایندھن انسان اور پتّھر ہوں گے‘‘۔ (التحریم: 6)
اس آیت میں مومنین کو ایک انتہائی اہم ہدایت (جس پر انسان کی حقیقی کامیابی کا دارو مدار ہے) دی گئی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر وکوشش کرنا۔ بلاشبہہ جہنم سے بچ جانا اور جنت نصیب ہونا ہی انسان کی اصل کامیابی ہے، جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:
’’جو جہنم سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہوا‘‘۔ (اٰل عمرٰن: 185)
ظاہر ہے کہ جنت نصیب ہونا منحصر ہے روز مرہ زندگی میں اللہ رب العزت اور رسول کریمؐ کی مخلصانہ اطاعت پر۔ اہلِ ایمان کے لیے آیت کا پیغام بہت ہی واضح ہے کہ وہ حکمِ الٰہی و سنتِ رسولؐ کے مطابق اپنے حالات سدھاریں، زندگی کے ہر شعبے میں دین کے تقاضوں کو پورا کریں، اور اسی طور پر اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لیے پور ی کوشش کریں۔ اس آیت کے نزول پر سیدنا عمر ابن خطابؓ نے نبی کریمؐ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اپنے آپ کو کیسے جہنم سے بچائیں، یہ تو سمجھ میں آگیا (کہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں اور گناہوں سے دْور رہیں)، مگر ہم اپنے اہل و عیال کو کس طرح جہنم سے بچائیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ اس طر ح کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے، اہل وعیال کو ان کاموں سے منع کرو، اور اللہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے کرنے کا انھیں حکم دو تو یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچائے گا۔ (روح المعانی)
صاحبِ تفہیم القرآن نے اس آیت کی تشریح میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص کی ذمے داری صرف یہ نہیں ہے کہ اپنی ذات کو اللہ کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جس خاندان کا وہ سربراہ ہے اس کو بھی ممکن حد تک ایسی تعلیم و تربیت دے کہ وہ احکامِ الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنے والا بن جائے، تاکہ اللہ رب العزت اس سے راضی ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے۔ (حاشیہ: 16)
نیکی و خیرخواہی کی تاکید:
قرآن کریم میں نبی آخر الزماںؐ کی امت کو ’خیراْمہ‘ کے لقب سے مشرف کیا گیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ یہ شرف و اعزاز مَر تبت ہے ایک بہت بڑی ذمے داری (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) سے۔ (اٰل عمٰرن: 110) سورۂ توبہ کی آیت 17 میں مومن مردوں اور عورتوں کے امتیازی اوصاف میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے باہم رفیق ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کے پابند ہیں اور اللہ اور اْس کے رسولؐ کی اطاعت میں سرگرم رہتے ہیں۔ اس آیت سے یہ نکتہ اخذ ہوتا ہے کہ رفاقت و دوستی ا ور بھائی چارگی کے تقاضے میں سے یہ ہے کہ ایک دوسرے کو نیکی کی دعوت دی جائے اور بْرے کام سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے۔ مزید برآں حدیث میں دین کو سراپا ’نصیحہ‘ (خیر خواہی) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی کی خیرخواہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے نیکی کی راہ پر چلانے اور برے کاموں سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ سورہ العصر ایک مختصر لیکن جامع ترین سورہ ہے۔ اس میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ کس کو حقیقی کامیابی نصیب ہوگی اور کون خسرانِ عظیم سے دوچار ہوگا؟ اس کے مطابق وہ لوگ خسران سے محفوظ رہیں گے جو ایمان و عملِ صالح کے ساتھ ’تواصی بالحق‘ اور’تواصی بالصبر‘ سے شغف رکھتے ہیں۔
مولانا عبد الباری ندوی اس سورہ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’انسان کو بحیثیت مجموعی خسران سے بچانے کے لیے صرف کچھ افراد کا اپنی اپنی جگہ ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کر کے مومنِ صالح بن جانا کافی نہیں، بلکہ ایمان و عمل صالح کی اس حقّانی زندگی کو پوری نوع انسانی میں پھیلانے اور پیدا کرنے کے لیے آپس میںایک دوسرے کو اس کی فہمایش و تاکید کرتے رہنا بھی لازم ہے‘‘۔ (قرآن کا دو آیاتی نظامِ صلاح و اصلاح، ص 106)
اہلِ خانہ کی اصلاح:
زیر مطالعہ آیت میں اپنے ’اہل‘ کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی اپنی اصلاح کے ساتھ ’اہل‘ کی اصلاح کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ ’اہل‘ سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس آیت کے علاوہ دیگر متعدد آیات میں یہ لفظ آیا ہے اور مختلف معانی (بیٹا، اولاد، بیوی، افراد ِ خانہ، گھر والے، اہلِ خاندان) میں استعمال ہوا ہے۔ ان سب آیتوں پر غور وفکر کا ماحاصل یہ ہے کہ اس کا عمومی اطلاق ان تمام افراد پر ہوتا ہے جو ایک ساتھ کسی گھر میں رہتے ہیں۔ اْردو میں اس کی جامع و عام فہم تعبیر ’گھر والے/ گھر والوں‘ سے کی جاتی ہے۔ اہم بات یہ کہ بیش تر اردو مترجمینِ قرآن نے ’اہل‘ کا ترجمہ گھر والوں یا اہل و عیال کیا ہے۔ اور بعض مفسرین کی رائے میں’اہل‘ کے دائرے میں غلام، مستقل ملازمین و خادمین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ (معارف القرآن، ج8، ص 502)۔ بہر حال ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ ہو یا ’تواصی بالحق‘، اس ذمے داری کی انجام دہی سب سے پہلے اپنے گھر والوں کی نسبت سے مطلوب ہے۔
اسی ضمن میں یہ بات بھی لائقِ توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت میں اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم سے بچانے کے لیے ’امر‘ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، یعنی تاکید کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اس نے اس کام کو فرض کا درجہ دے دیا ہے۔ مقصود یہ کہ ا پنی اور گھر والوں کی اصلاح کے لیے کوشش محض مطلوب نہیں، بلکہ ضروری ہے۔ آیت میں جہنم کی آگ کے بھڑکنے کے ذرائع ذکر کر کے اس کام (نارِ جہنم سے بچانے) کی ضرورت و اہمیت کو اور بڑھا دیا گیا ہے۔ سچ پوچھیے تو اس سے بڑھ کر ضروری و اہم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اس آیت کی تشریح میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے بجا تحریر فرما یا ہے: ’’ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے اسے اٹھائے نہ رکھے۔ جب بھی دیکھے کہ ان کے اندر اللہ کی شریعت سے بے پروائی راہ پارہی ہے، فوراً اس کے سدِّ باب کی فکر کرے‘‘۔ (تدبر قرآن)
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اپنے قبیلے و خاندان کے لوگوں کو اللہ کی نافرمانی ڈراو‘‘۔ (الشعراء: 214) تو نبی کریمؐ نے قبیلۂ قریش کی تمام شاخو ں کے لوگوں کو جمع کیا اور ایک ایک شاخ کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میں ( روزِجزا) تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا۔ آخر میں سیدہ فاطمہؓ سے ان الفاظ میں مخاطب ہوئے: ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ! تم بھی اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو، میرے پاس جو کچھ مال ہے اس میں جو چاہو لے سکتی ہو، لیکن(یاد رکھو کہ) میں قیامت کے دن اللہ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آسکوں گا‘‘۔ (صحیح بخاری) حقیقت یہ کہ گھر والوں کی تذکیر اور انھیں نارِ جہنم سے بچانے کی راہ میں کوشش کی نسبت سے اس فرمان نبویؐ میں ہم سب کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے اور ان مختصر جملوں میں انذار کے پہلو سے جو جامعیت ہے وہ اپنی جگہ مُسلَّم ہے۔
گھر کے نگران کی جواب دہی:
مذکورہ بالا آیت کے مطابق گھر والوں کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی ذمے داری کس کی ہے؟ بیش تر مفسرین اس کا مخاطب گھر کے سرپرست و نگراں کو قرار دیتے ہیں، یعنی گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے احوال کی درستی کی ذمے داری اصلاً گھر کے نگراں و سرپرست یا بڑے بوڑھوں کی ہے کہ وہ گھر کے لوگوں کو سمجھائیں۔ انھیں دین کی باتیں بتائیں، اچھے کاموں کی طرف توجہ دلائیں اور بْرے کاموں پر انھیں متنبہ کرتے رہیں۔ اس ضمن میں وہ حدیث بھی نقل کی جاتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں باز پرس ہوگی جو اس کی کفالت/ نگرانی میں رہتے تھے۔ (صحیح بخاری)
اس سے انکار نہیں کہ گھر کے لوگوں کی اصلاح یا ان کے حالات درست کرنے یا انھیں راہِ راست پر لانے کی اصل ذمے داری سرپرست یا نگراں کی ہی ہوتی ہے، لیکن آیت میں اپنے اہل و عیال کو نارِ جہنم سے بچانے کا حکم عمومی انداز میں دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے، جوان، بوڑھے، مرد و عورت کی تفریق کے بغیر گھر کے تمام لوگوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ موقع و محل کی رعایت کے ساتھ حسبِ استطاعت ایک دوسرے کو اچھی باتیں بتائیں، نیک کاموں کی طرف متوجہ کریں اور برے کاموں پر متنبہ کرتے رہیں، یعنی یہ سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔