افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

273

والدین کی اطاعت
والدین کی اطاعت اور دین کی خدمت کے درمیان توازن کا مسئلہ بالعموم ان سب نوجوانوں کے لیے وجہ پریشانی بنا رہتا ہے جن کے والدین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے ہمدردی نہیں رکھتے۔ میں نے عموماً یہ دیکھا ہے کہ ایک بیٹا اگر سرکاری ملازمت میں ہو یا کسی اچھے کاروبار میں لگا ہوا ہو تو والدین اس کے ہزاروں میل دور رہنے کو بھی برداشت کر لیتے ہیں اور اس سے کبھی نہیں کہتے کہ تو ملازمت یا روزگار چھوڑ دے اور آکر ہماری خدمت کر۔ بیٹے کے اطوار اگر فاسقانہ بھی ہوں تو اعتراض کی زبان کھولنے کی ضرورت انہیں بالعموم محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اپنے سارے حقوق انہیں صرف اسی وقت یاد آجاتے ہیں جب کوئی بیٹا اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیتا ہے حتیٰ کہ اگر جماعت اسے معقول معاوضہ دے تب بھی وہ یہی ضد کرتے ہیں کہ بیٹا گھر میں بیٹھ کر ان کے ’’حقوق‘‘ ادا کرے۔ بلکہ حقوق ادا کرنے پر بھی ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، اس کی ہر بات انہیں کھٹکتی ہے اور اس کی کسی خدمت سے بھی وہ خوش نہیں ہوتے۔ یہ صورت حال میں ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں اور جماعت کے بکثرت نوجوانوں کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ آپ کے ہاں فی الواقع کیا صورت حال ہے۔ اگر وہی کچھ ہے جو آپ کے بیان سے سمجھ میں آرہی ہے تو یہ آپ کے والدین کی زیادتی ہے آپ جہاں کام کر رہے ہیں وہیں کرتے رہیں۔ جو کچھ مالی خدمت آپ کے بس میں ہو وہ بھی کرتے رہیں بلکہ اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر اپنی مقدرت سے کچھ زیادہ ہی بھیجتے رہیں اور حسب ضرورت وقتاً فوقتاً ان کے پاس ہو آیا کریں۔ لیکن اگر صورتحال اس سے مختلف ہو اور فی الواقع آپ کے والدین اس بات کے محتاج ہوں کہ آپ کے لیے ان کے پاس رہ کر ہی خدمت کرنا ضروری ہو تو پھر مناسب یہی ہے کہ آپ ان کی بات مان لیں۔
(ترجمان القرآن، جنوری 1956ء)
ملازمین کے حقوق
رخصتوں کے بارے میں یہ معروف طریقہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سال میں ایک ماہ کی رخصت حسب معمول ملنی چاہیے اور ناگہانی رخصتیں سال میں پندرہ دن کی بامعاوضہ ملنی چاہییں۔ اس سے زائد رخصتیں ایک متعین حد تک بلا معاوضہ دی جاسکتی ہیں۔
بیماری کے دنوں کا معاوضہ ہر ملازم کو پورا ملنا چاہیے، قطع نظر اس کے کہ بیماری کتنی طویل ہو۔ کسی مستاجر (Employer) کو اگر یہ منظور نہ ہو تو پھر اسے بیمار ملازم کے مصارف علاج برداشت کرنے چاہیں یا اس کے علاج کا مفت انتظام کرنا چاہیے اور بیمار اور اس کے متعلقین کی ضروریات کا بقدر کفاف ذمے دار ہونا چاہیے۔
ملازم کا معاوضہ مقرر کرنے میں چند امور کا لحاظ کرنا ہوگا۔ مثلاً اس کے کام کی نوعیت کیا ہے، اس کی اپنی صلاحیت کیا ہے، اس نوعیت کے کام اور اس قابلیت کے آدمی کے لیے معروف ضروریات زندگی کیا ہیں اور اس خاص ملازم کی خانگی ذمے داریاں کیا ہیں۔
عام مستاجر افراد و ادارات کے بس کا تو یہ کام نہیں ہے کہ ملازم کے کنبے کے افراد جس تناسب سے بڑھتے جائیں، اس کی تنخواہ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا جاتا رہے۔ البتہ حکومت کو اس کی ذمے داری لینی چاہیے یا پھر بڑے بڑے کاروباری اور صنعتی اداروں کو بھی اس کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
رخصت کے لیے اجازت کا معاملہ بھی ایک طرح سے لین دین کے معاملات سے مشابہ ہے۔ اس لیے اصول تو یہی چاہتا ہے کہ تحریری درخواست اور تحریری اجازت کی پابندی ہو۔ البتہ پرائیویٹ ملازمت میں جہاں ایک شخص کا معاملہ ایک شخص ہی سے ہوتا ہے، وہاں زبانی اجازت کے استثناء کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
معاوضوں میں تفاوت کے علاوہ دیگر جملہ حقوق میں اصولاً اعلیٰ و ادنیٰ ملازمین میں یکسانی ہونی چاہیے۔
(ترجمان القرآن، جنوری 1953ء)