قرآن مجید کی تلاوت کا مقصود اس میں غور و فکر، تدبّر و تفکّر اور عبرت پذیری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ جلدی جلدی پڑھنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوسکتا۔ جو شخص قرآن کو بغیر سمجھے بوجھے پڑھ رہا ہو اسے بھی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے، اس لیے کہ یہ تلاوت ِ قرآن کے آداب میں سے ہے۔
سورۂ مزّمّل بعثت ِ نبویؐ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو مخاطب کرکے جہاں یہ فرمایا ہے کہ رات کا بیش تر حصہ، یا نصف یا اس سے کچھ کم بیدار رہ کر نماز پڑھا کرو، وہیں اس کا یہ بھی ارشاد ہے:
’’اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘۔ (المزّمّل: 4)
’ترتیل‘ کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کی جائے کہ اس کا ایک ایک حرف، ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت الگ الگ ہو۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھہرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلام ِ الٰہی کے مفہوم و مدّعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت وہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات ِ تشکّر سے لب ریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے، یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے؟ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں، بلکہ غور وفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے‘‘۔ (سورۂ مزّمّل، حاشیہ 4)
رسول اللہؐ نے اس ہدایت ِ ربّانی پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ متعدد صحابہؓ و صحابیاتؓ نے بیان کیا ہے کہ آپؐ کس طرح تلاوت ِ قرآن کیا کرتے تھے؟
اْم المومنین سیدہ ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں: ’’نبیؐ سست رفتاری سے قرآن کی تلاوت کرتے تھے‘‘۔ (احمد)
دوسری روایت میں ہے: ’’نبیؐ کی قرأت میں الفاظ الگ الگ ہوتے تھے‘‘۔ (ترمذی)
بعض دیگر روایتوں میں ہے کہ انھوں نے مثال دے کر آپؐ کا طریقۂ تلاوت سمجھایا۔ انھوں نے فرمایا: ’’رسول اللہؐ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے تھے‘‘۔ (ابو داؤد، ترمذی)
رسول اللہؐ کے خادم ِ خاص سیدنا انس بن مالکؐ سے سوال کیا گیا کہ آپؐ کیسے قرآن کی تلاوت کرتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: ’’آپؐ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے‘‘۔ (بخاری)
دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے مثال کے طور پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپؐ اللہ، الرحمٰن، الرحیم کو مَد کے ساتھ پڑھتے تھے۔
بعد میں علما نے تجوید کے قواعد وضوابط وضع کیے اور رموزِ اوقاف متعین کیے، چنانچہ مصاحف کی طباعت ان رموز کے ساتھ ہونے لگی، تاکہ لوگ درست طریقے سے قرآن کی تلاوت کر سکیں۔ تلاوت ِ قرآن کے دوران میں ان قواعد کی پابندی اور رموزِ اوقاف کی رعایت ضروری ہے۔
رہا یہ سوال کہ جو شخص قرآن پڑھتے ہوئے آداب ِ تلاوت کی رعایت نہ کرے اور ایک سانس میں کئی آیتیں یا پوری چھوٹی سورت پڑھ لے، اس کا کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں علما نے کہا ہے کہ اگر حروف کے مخارج درست ہوں اور معنٰی میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، البتہ افضل کے خلاف ہے۔ بعض علما اسے مکروہ قرار دیتے ہیں۔ دار العلوم دیوبند کے دار الافتاء سے یہ سوال کیا گیا: ’’قرآن مجید پڑھتے ہوئے بہت ساری جگہوں پر وقف اور وقف ِ لازم ہوتا ہے۔ وقف کرتے وقت اگر ہم آخری حرف کو سکون دیں، لیکن نئی سانس نہ لیں اور قرآن پڑھنا جاری رکھیں تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو کیا حرام، مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی ہے؟‘‘ تو اس کا یہ جواب دیا گیا: ’’سکون دے کر سانس کا انقطاع نہ کرنا اور آگے پڑھنا درست نہیں، اصولاً غلط ہے، جس کا حاصل کراہت ہے۔ اسی طرح وقفِ لازم پر وقف نہ کرنا اچھا نہیں۔ اس کا حاصل مکروہ ہے‘‘۔
قرآن مجید کی تلاوت اس کے تمام آداب اور قواعد ِ تجوید کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنی چاہیے کہ یہی حکم ِ الٰہی ہے اور اسوۂ رسولؐ بھی۔
OOO