بیلفور اعلانیہ جو فلسطینیوں کے لیے عذاب ثابت ہوا

822

ایک سو چار سال پہلے 2 نومبر کو برطانیہ نے وہ ظالمانہ بیلفور اعلانیہ جاری کیا تھا جس کے تحت ارض فلسطین جس پر برطانیہ کا کوئی حق نہیں تھا، اسرائیل کے قیام کے لیے صہیونی تحریک کے حوالے کردی گئی تھی۔ یہ اقدام فلسطینیوں کے لیے ایک دائمی عذاب ثابت ہوا ہے۔
برطانیہ نے 1917 میں فلسطین کی سرزمین پر جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھی خونریز جنگوں کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔ اسی سال 2 نومبر کو برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے صہیونی تحریک کے رہنما لارڈ لاینل روتھس چایلڈ کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ برطانوی حکومت ارض فلسطین پر یہودیوں کے وطن کے قیام کی حامی ہے۔ اسی خط کی بنیاد پر 1947 میں جیسے ہی برطانیہ فلسطین سے دست بردار ہوا صہیونیوں نے اس پورے علاقے پر قبضہ کر لیا اور ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے ان کے وطن سے باہر دھکیل دیا اور فی الفور تین چوتھائی علاقے پر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ اور امریکا نے کھلم کھلا اس اقدام کے حمایت کی جس کی دوسرے مغربی ممالک نے تائید کی۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں مغربی ممالک کا ناقابل تسخیر قلعہ بن گیا۔ اور یہ مغربی ممالک کی حمایت ہے کہ اسرائیل فلسطین پر اپنا تسلط برقرار کھنے میں کامیاب ہے اور غزہ پر جب اس کا جی چاہتا ہے وہ بے دھڑک اس پر حملہ کر کے تباہی مچا دیتا ہے اور محصور فلسطینیوں کو ہلاک کردیتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بیلفور اعلانیہ کی وجہ سے پچھلے دس برس میں 9 ہزار سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
حال میں اسرائیل نے اینٹی سیمیٹک، یہودیوں سے نفرت کے خلاف پالیسی کو کئی ملکوں کی سیاست میں مداخلت کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس کی نمایاں مثال برطانیہ کی حزب مخالف لیبر پارٹی کی ہے۔ اسرائیل کی لابی نے لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جیریمی کوربن کے خلاف اس قدر زور شور سے مہم چلائی کہ آخر کار انہیں پارٹی کی قیادت سے سبک دوش ہونا پڑا۔ جیریمی کوربن کھلم کھلا فلسطینیوں کے حقوق کے حامی تھے اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کے سخت مخالف تھے۔ جیریمی کوربن اپنی مقبولیت کی بنا پر عام انتخابات جیتنے کے نزدیک تھے جو اسرائیلی لابی کے لیے بے حد خطرے کا باعث تھی۔ اسرائیلی لابی نے ان پر یہودیوں سے نفرت کا الزام لگایا اور بھرپور مہم چلائی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب ممالک کی بڑی تعداد کی اب اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی ہمت نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ 2020 میں چار عرب ممالک بحرین، سوڈان، مراکش اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کی حامی بھر لی ہے؛ پچھلے دنوں سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کی براہ راست پروازوں کے سلسلے کی شروعات کو بے حد اہمیت دی جارہی ہے۔ بہر حال بیلفور اعلانیہ جہاں اسرائیل کے قیام کا پیش خیمہ بنا اب اسرائیل کے استحکام کی بنیاد بنتا جارہا ہے اور فلسطینیوں کے لیے دائمی عذاب بنتا جارہا ہے۔