پینٹاگون

621

’’Pantagon‘‘ کے لفظی معنی ہیں: ’’مُخَمَّسْ‘‘، (جیسے: مُثَلَّث اور مُرَبَّع وغیرہ)، یعنی ایسی عمارت جو پانچ زاویوں یا پانچ اَضلاع پر مشتمل ہو۔ پانچ اَضلاع پر مشتمل امریکی وزارتِ دفاع کی عمارت کو اس کی ہیئت کی وجہ سے پینٹاگون کہا جاتا ہے، اس میں امریکی مسلّح افواج اور ذیلی اداروں کے تمام دفاتر یکجا ہیں اور یہ امریکی دفاع کا انتظامی اور پالیسی مرکز ہے۔ ہمارے ہاں بَری فوج کے ہیڈ کوارٹر کو GHQ، فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر کو AHQ اور بحریہ کے ہیڈکوارٹر کو NHQ کہا جاتا ہے، الغرض تینوں مسلّح افواج کے ہیڈکوارٹرز الگ الگ ہیں، جبکہ امریکا میں ان سب کا مرکزی ہیڈ کوارٹر ایک ہی ہے۔ اسی طرح شَش جہات عمارت کو عربی میں ’’مُسَدَّس‘‘ اور انگریزی میں Hexagon کہا جاتا ہے، وغیرہ۔
امریکا میں سینیٹ کی کمیٹیاں بڑی طاقت ور ہوتی ہیں، وہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار کو حساس معاملات کی تحقیق کے لیے حتیٰ کہ صدر کو بھی مواخذے کے لیے طلب کرسکتی ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن پر جب اپنے اسٹاف کی ایک رکن ’’مونیکالیونسکی‘‘ کے ساتھ جنسی تعلقات کا الزام لگا تو انہیں ذاتی طور پر وڈیو لنک پر سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا، اسے وہاں کی اصطلاح میں ’’Testimony‘‘ (شہادت) کہا جاتا ہے، پہلے متعلقہ عہدیدار اپنا تفصیلی بیان دیتا ہے، پھر سینیٹرز اس سے سوالات بھی کرتے ہیں، آج کل سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رِیڈ ہیں۔ چنانچہ امریکی افواج کے سربراہ جنرل میکنزی کو بھی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں طلب کیا گیا۔ پہلے چیئرمین رِیڈ اور سینیٹر اِنہولف نے افغانستان کی بیس سالہ جنگ کے دوران اپنی مسلّح افواج کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا: ’’ہماری مسلّح افواج کے 2461 سپاہیوں، ملّاحوں اور ائرمینوں نے اپنی جانیں قربان کیں، 20698 زخمی ہوئے اور دوسرے لاتعداد افراد جنگ کے سبب نادیدہ ذہنی اذیتوں سے دوچار ہوئے‘‘۔
اس کے بعد جنرل مکینزی نے دس صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان پڑھ کر سنایا اور یہ بتایا کہ ہم نے جوفیصلے یا اقدامات کیے، ان کے بارے میں پینٹاگون میں تفصیلی اجلاس ہوئے، مشاورت ہوئی، فیصلے ہوئے، یہ کسی کے شخصی فیصلے نہیں تھے، انہوں نے تاریخ وار سارے اجلاسوں کی تفصیلات پیش کیں اور یہ بھی کہا: ’’میرا کام صدر کو مشورہ دینا ہے، ان پر اپنا فیصلہ مسلّط کرنا نہیں ہے، حتمی فیصلہ کرنا اُن کا کام ہے اور ہمارا کام اُن کے احکام کی بجا آوری اور ان کے فیصلوں کو نافذ کرنا ہے‘‘۔ کالم کی تنگ دامانی تفصیلات بیان کرنے کی متحمل نہیں ہے، ورنہ عالمی امور میں دلچسپی رکھنے والوں اور امریکی نظام کو سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے، انہوں نے کہا: ’’حکمتِ عملی کے بارے میں فیصلوں کے نتائج بھی مرتّب ہوتے ہیں، افغان جنگ سے چار امریکی صدور، بارہ وزرائے دفاع، سینٹرل کمانڈ کے دس کمانڈرز اور افغانستان میں اپنے فرائض کی بجا آوری پر مامور بیس کمانڈرز کو واسطہ پڑا، ان کے علاوہ کانگریس کے سیکڑوں وفود کے دورے اور بیس سالہ نگرانی رہی، سو اس میں ہمارے لیے سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں‘‘۔ بعض کلیدی امور کے جائزے کے لیے گہری فکری مشق درکار ہے اور ہمیں پاکستان کے کردار کا بھی مکمل جائزہ لینا ہے، انہوں نے کہا: ’’ہمیں اُس کرپشن کا بھی جائزہ لینا ہے جس کے نتیجے میں افغان حکومت گیارہ دن میں منہدم ہوئی، یہ اور بہت سے دیگر امور ایسے ہیں کہ جن کا آنے والے مہینوں اور برسوں میں گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے اس بات کا جائزہ لینا میری ذمے داری ہے، میں اس کے لیے جوابدہ ہوں کہ ہم نے افغان دفاعی افواج کو کیسے تربیت دی اور مسلّح کیا اور وہ کوئی مزاحمت کیے بغیر کیسے منہدم ہوگئی، ہمیں اپنے انٹیلی جنس نظام کا بھی جائزہ لینا ہے، الغرض اس طرح کے کئی اور پیچیدہ امور ہیں کہ جن کا آنے والے مہینوں اور برسوں میں جائزہ لیا جاتا رہے گا‘‘۔ انہوں نے دس صفحات پر مشتمل ایک تحریری بیان کمیٹی کے سامنے دیا اور کہا: ’’میں ریکارڈ کے لیے اپنے اقدامات کا ایک اور مفصّل جائزہ پیش کروں گا‘‘۔
آخر میں انہوں نے کہا: ’’میں تمام واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے کو خوش آمدید کہوں گا اور اگر اس کے لیے ایک مفصل اجلاس منعقد کیا جائے جہاں تمام تفصیلات یعنی فیصلوں اور اقدامات کے حُسن وقبح پر بحث ہو، میں اس کا خیر مقدم کروں گا۔ میں سارے ای میل، فون لاگ، یادداشتیں، شہادتیں اور معاملے کی بہتر تفہیم کے لیے دیگر تفصیلات بھی پیش کروں گا۔ میرا حلف نسلی تعصب اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر تمام داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف امریکی دستور کی حفاظت کے لیے کمربستہ رہنا ہے اور میں کبھی اپنے حلف سے روگردانی نہیں کروں گا۔ میرا کامل یقین ہے کہ امریکی مسلّح افواج سویلین کنٹرول کے تابع ہیں اور یہ ہماری جمہوریہ کا غیر متبدّل اساسی اصول ہے، نیز میں اس امر کا پابند ہوں کہ امریکی مسلّح افواج داخلی سیاست سے دور رہیں‘‘۔
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھی ہیں تاکہ قوم کو معلوم ہوکہ عالمی قیادت پر فائز قوموں میں جواب دہی اور تحدید وتوازن کا نظام کس قدر مستحکم اور مضبوط ہے، کوئی آئین وقانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ ریاست اور اس کے اداروں کے سامنے جوابدہ ہے، مسلّح افواج کی وطن کے لیے قربانی احسان نہیں، فرض ہے اور یہ منصب وہ اسی فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قبول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس 16دسمبر 1971 کو پلٹن میدان ڈھاکا میں سپر اندازی کی تقریب ہورہی تھی اور پاکستان کا سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن قوم کو بتارہے تھے: ’’دونوں کمانڈروں نے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے، جبکہ ملک کے کونے کونے میں لوگ بی بی سی ریڈیو کے اردو پروگراموں کو پابندی سے سن رہے ہوتے تھے، کیونکہ اپنے میڈیا سے انہیں صحیح خبریں نہیں مل رہی تھیں اور قومی اخبارات بھی سرکاری بیانات نشر کر رہے ہوتے تھے۔ لیکن کیا اس سے حقائق بدل جاتے ہیں یا حقیقت کو زیادہ عرصے تک لوگوں سے پوشیدہ رکھا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات میں تو میڈیا اور اطلاعات کی بہم رسانی کے ذرائع عمودی اور اُفقی اعتبار سے اتنے محیط ہوچکے ہیں کہ روئے زمین میں کہیں بھی کوئی واقعہ رونما ہو، چند سیکنڈوں میں وہ خبر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے، دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کے صدور کے لیے بھی اپنے میڈیا کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے، کیا کوئی تصور کرسکتا تھا کہ امریکا کے صدر کے ٹویٹر اکائونٹ کو بلاک کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ پہلے تازہ اور درست معلومات کے لیے پرائیویٹ قومی ٹیلی ویژن چینلوں کو دیکھتے تھے، لیکن جب ان پر بھی غیر مرئی بندشیں عائد ہوگئیں تو پھر ان کا اعتبار بھی باقی نہیں رہا اور اب باشعور لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ٹیلی ویژن کے باقاعدہ ناظرین میں شامل نہیں رہی۔ پھر لوگوں نے سوشل میڈیا کی طرف رجوع کیا، لیکن جب یہ دیکھا: وہاں بھی پروگرام کرنے والوں کی اکثریت ایک پوزیشن اختیار کرچکی ہے، کوئی کسی کا نمائندہ ہے اور کوئی کسی کا، کوئی کسی کا ترجمان ہے اور کوئی کسی اور کا، خبروں کی صداقت وثقاہت چند گھنٹوں یا دنوں میں واضح ہوجاتی ہے، لہٰذا اب ان سے بھی اعتبار اٹھتا جارہا ہے، بس ایک تحیّرکی کیفیت پیدا کی جاتی ہے، اگلے مرحلے کے لیے کسی اور عنوان کا سہارا لیا جاتا ہے، جن تجزیہ کاروں سے جزوی طور پر کوئی مفید تجزیہ یا معلومات مل جاتی ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گننے کے برابر ہے۔
آج کی دنیا پر امریکا کا تسلّط صرف طاقت کی بنیاد پر ہے، اس کا قانونی اور اخلاقی جواز اس کے پاس نہیں ہے، کیونکہ امریکا نے طاقت کے بل پر اپنے قومی مفادات ہی کو دنیا پر نافذ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے، اس ذہنیت کے نتیجے میں دلیل واستدلال کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے۔ امریکا افغانستان میں بیس سالہ جنگ اور سوا دو کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ناکام رہا، اس نے اپنی جگہ لینے کے لیے جو نظام قائم کیا، اس پر زرِ کثیر خرچ کر کے تربیت کی اور جدید اسلحے سے لیس کیا، وہ پوری عمارت چند دنوں میں زمیں بوس ہو گئی۔ لیکن اب وہ امارتِ اسلامی افغانستان سے یہ توقع کر رہا ہے کہ وہ پلک جھپکتے ہی افغانستان کو دنیا کا ایک جدید ترین ملک بنادے، لیکن ایسا کرنے کے لیے بھی وسائل چاہییں، جبکہ اس نے ان کے زرِ مبادلہ کے تمام ذخائر کو منجمد کردیا ہے۔
امریکا نے دنیا کے مالیاتی نظام کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، جب چاہتا ہے کسی ملک کے محفوظ مالیاتی ذخائر کو منجمد کردیتا ہے، جب چاہتا ہے کسی ملک پر تجارتی پابندیاںعائد کردیتا ہے، ایران کا تجارتی محاصرہ اس کی نمایاں مثال ہے۔ جب تک دنیا عالمی تجارت کے لیے ڈالر سے ہٹ کر کوئی اور معیار مقرر نہیں کرے گی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ امریکا کے زیر کنٹرول عالمی مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ سے جو قرضے ملتے ہیں، وہ SDR کہلاتے ہیں، یعنی منظور شدہ قرضوں کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بوقتِ ضرورت عالمی مالیاتی اداروں سے زرِ مبادلہ کے استعمال کے لیے ادائی کی مالیاتی دستاویز ات جاری کی جاتی ہیں، یعنی متعلقہ ملک ان منظور شدہ قرضوں کے مقابل جو چیک یاتمسّکات جاری کرے گا، وہ کلیئر ہوجاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کروڑوں یا اربوں منظور شدہ ڈالر اس ملک کے قومی خزانے میں منتقل ہوجاتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو امریکا کے لیے یکدم پابندیاں لگانا یا زرِ مبادلہ کے ذخائر کو منجمد کرنا عملاً ممکن نہ ہوتا، زیادہ سے زیادہ وہ آئندہ کے لیے ایسی اعانت کو روک سکتا تھا۔
امریکا نے اپنی ترجیحات کو بدل دیا ہے اور اب اس کا رُخ بحر الکاہل اور بحرِ ہند کے سنگم پر آبنائے ملاکا میں چین کا محاصرہ کرنے کی جانب ہے، اس لیے اس نے امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا پر مشتمل ایک Quad (چار ملکی محاذ) تشکیل دیا ہے، نیز آسٹریلیا، یوکے اور یو ایس پر مشتمل سہ ملکی اتحاد ’’Aukus‘‘ تشکیل دیا ہے اور آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے چلنے والی ایٹمی آبدوزوں کی تیاری کے منصوبے میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے، ایسے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹریا آبدوزیں جو ریڈار کی گرفت میں نہ آئیں، Stealth کہلاتی ہیں۔