اے ابن آدم آج کے زمانے میں ہر شخص پیسے اور صرف پیسے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ میرے خیال میں اگر دعائیں مانگے والوں کا سروے کریں جو آج تک نہیں ہوا تو 95 فی صد لوگ ہر دعا میں صرف پیسہ، مال، دولت ہی مانگتے ہیں اور وقت سے پہلے مانگتے ہیں اور جتنا ان کے مقدر میں ہے اُس سے زیادہ مانگتے ہیں۔ اب اللہ انہیں یہ سب کچھ دیتا ہے یا نہیں، یہ اللہ اور بندے ہی کو پتا ہوتا ہے۔ ہر انسان پیسے سے اپنی جائز اور ناجائز ہر قسم کی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہے اور جھوٹی شان اور نمود و نمائش کے لیے پیسے کا زیاں کرتا ہے، قرض لیتا ہے، کریڈٹ کارڈ کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ہمارے بینکوں نے کنزیومر بینکنگ کو ترویج دے کر تمام لوگوں کو سود کے چکر میں ڈال کر اس زوال پزیر قوم کو ایک کے بعد ایک قرضوں کے گڑھے میں دھنسا دیا ہے۔ لوگ جب قرضہ لینے جاتے ہیں تو 90 فی صد لوگ بینک کی شرائط کو پڑھتے ہی نہیں ہیں، اگر پڑھ لیں تو قرض اور سود کے چکر میں نہ پھنسیں۔ ایک قرضہ تو لوگ بینکوں وغیرہ سے لیتے ہیں، دوسری قسم کا قرض سود خور لوگوں سے لیتے ہیں، تیسری قسم کا قرضہ کریڈٹ کارڈ جس کی ایک اور خطرناک شکل گولڈ کارڈ، سلور کارڈ وغیرہ وغیرہ ہے اور چوتھی قسم شخصی قرضے ہیں جو لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں، دوستوں اور جاننے والوں سے لیتے ہیں۔ کچھ آپ کے دوست آپ کو دھوکا دیتے ہیں، جعلی کاموں کے ذریعے بھی پیسے لے کر کھا جاتے ہیں۔
قرض لینا خاصا آسان کام ہے۔ روتے دھوتے منہ بسورتے شکل پر بارہ بجاتے معصوم سی صورت بناتے ہوئے ہاتھ پھیلا دیتے ہیں اور کوئی نہ کوئی قرض دے ہی دیتا ہے۔ لیکن قرض کی رقم واپس لینا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ کیونکہ جو قرض لیتا ہے اس کے بعد اس کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذاتی عیاشی قائم دائم رہتی ہے قرض واپس کرنے کی ہمارے ملک میں روایت نہیں رہی، اب آپ کسی سے اپنا دیا ہوا قرض مانگنے جائیں تو یہ جملے آپ کو سننے کو ملیں گے۔ یار میں بھاگ تو نہیں رہا، کیا روز روز تنگ کرنے آجاتے ہو، میرے حالات بے حد خراب ہیں، یار بجلی، گیس کے بل ادا نہیں کرسکا آخری نوٹس آگیا ہے۔ بچوں کی فیس ادا نہیں کی، بیگم بیمار، اماں یا ابا بیمار سب پیسہ علاج پر خرچ ہوگیا، کاروبار میں بہت مندی آگئی ہے۔ حالاں کہ قرض کے بارے میں روایت یا حدیث ہے کہ ’’گناہ کبیرہ سے بھی بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص مرجائے اور اس کے ورثا اس کا قرضہ ادا نہ کرسکیں‘‘۔ میری زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے کہ میں نے اپنے ایک دوست کو اپنی ضمانت پر قرضہ دلوا دیا، صرف رحم کی بنیاد پر وہ گھر کے چکر لگا رہے تھے، میں ایک سفید پوش انسان بیٹی کی شادی کا مسئلہ تھا میں نے بہت سمجھایا کہ یار سادگی کے ساتھ رخصت کرو، تو کہنے لگے یار خاندان والوں کو کیا منہ دکھائوں گا۔ خیر ایک بینک سے قرض میں میں ضمانتی بن گیا۔ موصوف 3مہینے سے قسط جمع نہیں کروارہے تھے، میرے پاس بینک سے فون آنے شروع ہوگئے، میں سارے کام چھوڑ کر اُن کے گھر جاتا کئی کئی گھنٹے ان کا انتظار کرتا، وہ آتے تو اُن سے کہتا کہ بھائی جتنی تمہاری قسط ہے اتنی تو میری تنخواہ ہے، میں آپ کی قسط نہیں بھر سکتا۔ 3 سال سے زیادہ میں نے اُن کے گھر کے چکر لگائے، اللہ اللہ کرکے اُن کا قرض ادا ہوا، میں نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور اللہ سے توبہ کی کہ اب کسی کے قرض کا ضمانتی نہیں بنوں گا۔
اب چلتے ہیں اُن قرضوں کی طرف جو اس ملک کا مراعات یافتہ طبقہ کھا لیتا ہے، عوام کو بھول جانے کی عادات ہے، اس ملک میں کئی اہم کیس چلے اور پھر بند ہوگئے جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا کیس جو آج تک حل نہ ہوسکا۔ خیر ایک (ر) ائرمارشل اصغر خان کا کیس تھا جس میں ایک لمبی فہرست اُن لوگوں کی تھی جو بڑے بڑے قرضے لے کر معاف کروا کر بیٹھ گئے، پھر (ر) جنرل پرویز مشرف کے این آر او نے بڑے بڑے قرض چوروں کو عزت دار بنادیا تھا، بڑے بڑے چودھری، وڈیرے، سائیں، سردار بینکوں کے اربوں کے قرض معاف کروا چکے آج قوم اُس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو قرض لیتے ہیں وہ کسی پروجیکٹ یا عوام کی فلاح وبہبود کے نام پر، تعلیم کے نام پر، غربت کے خاتمے کے نام پر مگر افسوس کے نااہل حکمرانوں کے اُن قرضوں کو باپ کا مال سمجھ کر لوٹا اور لندن، امریکا جاکر بیٹھ گئے۔ آج کہتے ہیں کہ ہم پارسا ہیں، اربوں ڈالرز کی جائدادوں کے مالک بنے ہوئے ہیں، ہمارے خان صاحب نے کہا تھا کہ ہم قرض نہیں لیں گے مگر انہوں نے تو سب کا ریکارڈ ہی توڑ دیا۔ ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ سابقہ حکومت کے قرضوں کو اُتارنے کے لیے قرض تو لینا ہوگا۔ اس وقت بڑے بڑے سیاستدان بے نقاب ہوچکے ہیں، نیب زدہ الگ ہیں، اگر ایمانداری سے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرپشن کا مال بھی واپس لے لیا جائے تو قرضوں کا بوجھ اُتر سکتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین، شرجیل انعام میمن، زرداری صاحب، ملک ریاض، فیصل واوڈا سمیت ایک بہت طویل لسٹ ہے جو حکومت کے پاس موجود ہے، نجانے کیوں ان لوگوں سے وصولی نہیں کی جاتی۔ قانونی جنگ شروع ہوجاتی ہے، برسوں مقدمہ چلتا ہے اور پھر لوگ بھول جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسے بھی لوگ ہیں جن پر کرپشن کا کوئی چارج نہیں، وہ آپ کو صرف جماعت اسلامی میں ملیں گے، مگر افسوس قوم اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایماندار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔
آج ہر دوسرا آدمی مہنگائی کو، غربت کو رو رہا ہے اور روتا ہی رہے گا جب تک خوابوں کی دنیا سے باہر نہ آجائے، جھوٹے نعروں سے باہر نہ آجائے، موروثی سیاست سے باہر نہ آجائے، اُس کے بعد ہی خوشحالی آئے گی۔ میں 35 سال سے سماجی خدمت کررہا ہوں، بلارنگ و نسل ایک مفت قبرستان، مفت اسپتال، مفت اسکول، مفت کالج، مفت یونیورسٹی، مفت اولڈ ہائوس، مفت یتیم خانہ، یہ سب میری خواہشات تھیں مگر ان میں سے ایک خواب پورا نہ ہوسکا، جب کہ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار سرمایہ دار موجود ہیں، تاجر ہیں جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اُن کے پاس دولت کتنی ہے، ابھی چند دن پہلے ایک کاروباری اس دنیا سے گیا ہے، اربوں روپے عوام کے کھا کر ایسے بے شمار اور بھی لوگ موجود ہیں جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں مگر وہ اس سے خیر کے کام نہیں کرتے کیوں کہ اللہ نے اُن کو توفیق نہیں دی اور خود میں بھی نیکی نہیں کرنا چاہتے، کل سب کو مٹی میں مل جانا ہے کسی کے کام اس دولت کو نہیں آنا دولت سے دنیا تو سنور سکتی ہے آخرت نہیں۔ جنت دولت سے نہیں خرید سکتے اس کے لیے مومن بننے کی ضرورت ہے۔ ابھی آپ دولت مندوں کے پاس وقت ہے ملک سے کمایا ہوا مال ملک کو واپس دے دیں اور سکون کی نیند سوئیں۔ مجھے پتا ہے آپ روزانہ 10 گولیاں کھاتے ہیں مگر نیند سکون کی پھر بھی نہیں آتی، اللہ سے ڈریں۔