افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

380

شادی کے لیے قرض لینا :ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہے وہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔ اپنی غلط خواہش کی وجہ سے یا تو وہ سودی قرض لے گا یا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکا ڈالے گا۔ اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اْمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
مالداروں میں شادی کرنا :ایسے شخص کو اپنے لڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیے جو مالی حیثیت سے اسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کو زیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔ اپنے سے بہتر مالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
لڑکی کا رشتہ پیش کرنا :یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتدا کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرامؓ میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمؐ اس کو منع فرما دیتے۔
رسومات سے نجات :یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے، خدا اور رسولؐ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔
مہر :شریعت نے مہر کو عورت کا ایک حق مقرر کیا تھا اور اس کے لیے یہ طریقہ طے کیا تھا کہ عورت اور مرد کے درمیان جتنی رقم طے ہو اس کا ادا کرنا مرد پر واجب ہے۔ لیکن مسلمانوں نے شریعت کے اس طریقہ کو بدل کر مہر کو ایک رسمی اور دکھاوے کی چیز بنا لیا، اور بڑے بڑے مہر دکھاوے کے لیے باندھنے شروع کیے، جن کے ادا کرنے کی ابتدا ہی سے نیت نہیں ہوتی اور جو خاندانی نزاع کی صورت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے بلائے جان بن جاتے ہیں اب ان غلطیوں سے بچنے کی سیدھی اور صاف صورت یہ ہے کہ مہر اتنے ہی باندھے جائیں جن کے ادا کرنے کی نیت ہو، جن کے ادا کرنے پر شوہر قادر ہو۔ پورا مہر بروقت ادا کردیا جائے تو بہتر ہے، ورنہ اس کے لیے ایک مدت کی قرار داد ہونی چاہیے اور آسان قسطوں میں اس کو ادا کردینا چاہیے۔ اس راستی کے طریقہ کو چھوڑ کر اگر کسی قسم کے حیلے نکالے جائیں گے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ایک غلطی سے بچنے کے لیے دس قسم کی اور غلطیاں کی جائیں گی جو شرع کی نگاہ میں بہت بری اور اخلاق کے اعتبار سے نہایت بدنما ہیں۔ آپ ایسے نکاح میں وکیل یا گواہ کی حیثیت قبول نہ کریں، بلکہ فریقین کو سمجھانے کی کوشش کریں اور اگر نہ مانیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ نکاح میں شریک ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جھوٹ اور فریب کا گواہ بننا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر46ء)