اسلام آباد (آن لائن) احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سوا تمام شریک ملزمان نے ترمیمی آرڈیننس کا سہارا لے لیا، ، شاہد خاقان کے بیٹے سمیت تمام ملزمان کے وکلا نے کیس ٹرانسفر کرنے کی استدعا کردی، چودھری اسلم، عبداللہ خاقان، عظمی عادل، عامر نسیم کے وکلا کے دلائل مکمل ہوگئے، ریلوے اراضی کیس میں سابق وزیر ریلوے جاوید اشرف قاضی اور دیگر کے خلاف ریفرنس میں نامزد تمام ملزمان نے بھی نیب آرڈیننس کے تحت ریفرنس کو احتساب عدالت میں چیلنج کردیا، عدالت نے ملزمان کی نیب آرڈیننس کے تحت ریلیف کی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بریت کی درخواستوں پر نیب سے 8 نومبر تک جواب طلب کرلیا، درخواست میں استدعا کی گئی کہ نیب آڑڈیننس کے بعد نیب کورٹ کا دائرہ اختیار ختم ہو جاتا ہے، بری کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفراللہ کو روسٹرم پر بلا کر پوچھا کہ آپ بھی ترمیمی آرڈیننس کا سہارا لینا چاہتے ہیں؟ جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اس بارے میں بتایا نہیں گیا۔ شاہد خاقان کے بیٹے عبداللہ خاقان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عبداللہ خاقان کے اکائونٹ میں گئی رقم کو ایم ڈی ائر بلیو چودھری اسلم کے وکیل نے مالی مدد قرار دیا، شاہد خاقان جب وزیر بنے تو ائر بلیو سے مستعفی ہوئے، اخراجات پورے کرنا مشکل تھا، چودھری اسلم اس مشکل وقت میں شاہد خاقان کے ساتھ کھڑے ہوئے یہی ان کا قصور ہے، جو رقم مالی مدد کیلیے دی بعد میں واپس لے لی، نیب اسے منی لانڈرنگ کہتا ہے۔ عظمیٰ عادل کے وکیل بیرسٹر شعیب نے عدالتی کارروائی پر اعتراض اٹھایا کہ عظمیٰ عادل کو جن فیصلوں پر چارج کیا گیا ان پر اب نیب کا اختیار نہیں ہمیں پہلے طے کرنا ہوگا ترمیمی آرڈیننس کے بعد اس کیس کی حیثیت کیا ہے، اس کیس میں فرد جرم نیب آرڈیننس 1999 کے مطابق عاید ہوئی اب اس آرڈیننس کے سیکشن 4 کو تبدیل کیا جاچکا آرڈیننس نے صاف کہہ دیا یہ کیسز اب ٹرانسفر ہوجائیں گے اس وقت اگر یہاں کوئی بھی کارروائی جاری رہتی ہے تو وہ خلاف قانون ہے۔ سابق رکن اوگرا عامر نسیم کے وکیل عمران شفیق نے بھی اعتراض کیا اور عدالت کو بتایا کہ عامر نسیم کی حد تک بھی اب یہ ٹرائل نہیں چل سکتا نیب کے پاس اب مالی فوائد کے ثبوت ہونا لازم ہے، عامر نسیم کیخلاف مالی فوائد لینے کے کوئی شواہد موجود نہیں بیوروکریٹ کے محض کسی فیصلے پر کیس نہیں بن سکتا، فیصلہ ٹھیک نکلا یا نہیں اس کو جرم کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ فیصلے عدالتوں کے بھی اوپر جا کر کئی بار غلط قرار دیے جاتے ہیں اس کیس میں مرکزی ملزم شاہد خاقان عباسی ہیں اب تو شاہد خاقان پر ہی یہ کیس نہیں بنتا باقی ملزمان تو ٹانگے کی سواریاں ہیں جنہیں ساتھ بٹھا دیا گیا، مرکزی ملزم پر ہی جب نیب کا اختیار باقی نہیں تو شریک ملزمان یوں ہی بری ہوتے ہیں، ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ آرڈیننس ایک شخص کو فائدہ دینے کیلیے تھا ایک شخص کو ایکسٹینشن دی گئی لیکن ساتھ اختیار کے غلط استعمال کی بات بھی ہے آرڈیننس اچھی نیت سے آیا ہے۔ ملزمان کے اعتراضات کے جواب میں نیب پراسیکیوٹر عثمان مرزا نے دلائل دیے کہ پرانے کیسز پر آرڈیننس کا اطلاق ہوا تو تمام سزائیں متنازع ہو جائیں گی، مضاربہ اسکینڈل میں ہوئی ریکوری بھی متنازع ہوجائے گی، ہم جو لوٹی گئی رقوم برآمد کرکے عوام کو واپس کرچکے وہ بھی متنازع ہوں گی، ایسا ممکن ہی نہیں کہ پہلے سے موجود کیسز پر آرڈیننس کا اطلاق ہو، آرڈیننس کا اطلاق پہلے سے موجود کیسز پر ہوتا تو الگ لکھا جاتا، 1999 کے آرڈیننس میں الگ سے لکھا گیا تھا کہ 1985 سے اطلاق ہوگا، موجود آرڈیننس میں ایسا الگ سے کچھ بھی نہیں لکھا گیا۔ اس موقع پر سینئر وکیل شاہ خاور نے نیب پراسیکیوٹر کے دلائل پر اعتراض کرتے ہوئے بتایا کہ نیب اس معاملے میں اسٹیک ہولڈر ہے اس کی رائے نہ لی جائے، اس معاملے پر اگر تشریح کرنی ہے تو اٹارنی جنرل ہی متعلقہ شخص ہیں۔ اس موقع پر جج اعظم خان نے استفسار کیا کہ کیا آرڈیننس میں لکھا ہے کیسز ٹرانسفر ہوں؟ اگر اطلاق پہلے سے نہیں تو یہ کیوں لکھا گیا ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ یہ ان کیسز کیلیے لکھا ہے جن پر اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہوگا ایل این جی کیس کی حد تک اس عدالت کا اختیار بنتا ہے۔ احتساب عدالت میں سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے آرڈیننس کا مقصد صرف موجودہ چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا تھا ایسا قانون بنایا کہ جج بھی پریشان ہیں ہم فیصلہ کیا کریں، انہوں نے مزید کہا کہ لندن میں میاں نوازشریف سے کسی کی کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ ہی ن لیگ خفیہ ملاقاتوں پر یقین رکھتی ہے، جو بھی ہو گا عوام کے سامنے ہو گا۔