کراچی( اسٹاف رپورٹر) عدالت عظمیٰ نے ایک ہفتے میں نسلہ ٹاور کو دھماکے سے گرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ نسلہ ٹاورکا مالک متاثرین کو رقم واپس کرے اور کمشنرکراچی نسلہ ٹاور کے مالک سے رقم متاثرین کو واپس دلوائیں۔ عدالت نے کمشنر کراچی کو ایک ہفتے میں عمل درآمد رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا۔ پیر کو عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل بنچ کے روبرو نسلہ ٹاور کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس کا ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ ہوا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی ایسی مشینری نہیں جس سے فوری طور پر بلڈنگ کو گرایا جائے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عمل کے لیے اصل چیز نیت ہوتی ہے، آپ کے پاس ایسی مشینری نہیں تو جائیں پاکستان کی آرمی کے پاس مشینری موجود ہے، ان سے مدد لیں۔ عدالت نے کہا کہ دھماکے سے نسلہ ٹاورکے قریبی عمارتوں یا لوگوں کوکوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔واضح رہے کہ چند روز قبل ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عدالتی حکم پر نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کو عمارت خالی کرنے کے لیے نوٹس بھی جاری کیے جاچکے ہیں۔علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے کے ایم سی رفاعی پلاٹس پر قبضوں سے متعلق کیس میں ایڈمنسٹر یٹر کراچی بیرسٹر مرتضی وہاب کو جھاڑ پلادی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا، اس پر کتنا عملدرآمد کیا ؟کوئی عملدرآمدنہیں ہوا، شہر چلانا الگ اور ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں کرنا الگ بات ہے، آپ نے ایڈمنسٹریٹر بننے کے بعد کیا کارنامہ انجام دیا؟۔ مرتضی وہاب نے کہا کہ بارش کے دوران نکاسی آب کے مسئلے کو کافی حد تک حل کیا، اس سال بارش میں عوام کو کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلی بارشوں میں بھی پہلے جیسی صورتحال تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ شہر کی بہتری کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے وہ بتائیں؟ زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش مت کریں،کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا، آپ نے اس شہر کے لیے کچھ نہیں کیا،کچھ کیا ہے تووہ لکھ کردیں۔ عدالت عظمیٰ کولیکچر مت دیں ،سب دو نمبرلیز کروا کر سمجھتے ہیں کہ لیز ہوگیا۔عدالت نے مرتضی وہاب سے تحریری رپورٹس طلب کرلیں۔مزید برآں اورنگی ،گجر و دیگر نالوں پر تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔عدالتی حکم پر وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سندھ سے مکالمہ میں کہا کہ شہر کو بہتر کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں، کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کیسے بہتر ہوگا،سہراب گوٹھ سے جاتے ہوئے کیا حالات ہیں، کیا یہ میٹروپولیٹن شہر ہے؟ لوگ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں۔ کیا دنیا کے دیگر میٹروپولیٹن شہر بھی ایسے ہی ہیں، کوئی ایک چیز نہیں جس میں بہتری آرہی ہو۔ دیگر میٹروپولیٹن شہر دیکھیں،ہرے بھرے ہوتے ہیں۔ آپ بتائیں، یہ شہر کیسے بہتر ہوگا۔ آپ کے پاس کیا پلان ہے، بتائیں ہمیں۔ ٹریفک کا حال دیکھیں، ہیوی ٹریفک چل رہا ہوتا ہے، ہم تو کوشش کر رہے ہیں آپ بتائیں کیا کر رہے ہیں۔ہمیں تو کوئی بہتری نظر نہیں آتی، جمعہ کو گلستان جوہر سے آرہا تھا بدترین صورتحال ہے،آپ کہیں گے یونیورسٹی روڈ بنا دی، یونیورسٹی روڈ پر سب رفاعی پلاٹوں پر قبضہ ہوچکا۔پارکوں پر تجاوزات قائم کردی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بتائیں کراچی کون چلا رہا ہے، کیونکہ سب ہی ادارے مفلوج ہیں، کیا کراچی خود ہی چل رہا ہے۔ کے ڈی اے، کے ایم سی، ایس بی سی اے، کوئی ادارہ نہیں چل رہا۔ سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ بتائیں کیا متاثرین کو بحال کرنا آپ کا کام نہیں۔ آپ کہتے ہیں پیسے نہیں، باقی کام بھی تو چل رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ کے پاس کوئی پلان نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہاکہ یہ بہت بڑی الارمنگ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا بیان پڑھ لیا۔ آپ کہتے ہیں مافیا ہے مگر اس مافیا کو کون کنٹرول کرے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ماضی میں سٹرکوں پر دکانیں لیز کر دی گئیں، ماضی میں جو کچھ ہوا اس کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ آپ قبضہ مافیا سے کسی قسم کی رعایت نہ کریں، رحم کھانے کی ضرورت نہیں۔وزیر اعلی ٰسندھ نے کہا کہ بڑا ایشو مالی وسائل کا ہے، ہم بھی نالہ متاثرین کی بحالی چاہتے ہیں، وفاق سے 36 ارب روپے آباد کاری کے لیے مانگے، ہمیں وفاق کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دییکہ تیس چالیس سال سے کوئی حکومتی ہاؤسنگ اسکیم نہیں بنائی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ نالہ متاثرین کی بحالی کے لیے ایک ارب روپے شروع میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے۔ متاثرین کے لیے پی سی ون بن چکا ۔2سال میں متاثرین کو بحال کر دیں گے۔ایک ارب ابھی اور باقی 9 ارب بعد میں جاری کردیں گے۔واقعی 10ارب سندھ حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں, مجھے ایک موقع دیجئے، میں آپ سے ملاقات میں پوری تفصیلات شیئر کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے برابر میں صوبائی وزیر کھڑے ہیں۔آپ کا وزیر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتا،وزیراعلیٰ صاحب یہ بہت بری صورتحال ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہا کہ میں نے پہلی بار سنا کہ حکومت کہہ رہی ہو کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ کے ایڈووکیٹ جنرل نے گزشتہ سماعت پر چونکادینے والابیان دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہر بات میں وفاقی حکومت کی بات کر رہے ہیں، اگر وفاق یہاں آکر بیٹھ گیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟۔ عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو افسران کی تعیناتی کا مسئلہ وفاقی حکومت کے سامنے رکھنے کی ہدایت کردی۔ عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائیکورٹ کے حکم امتناعی ختم کردیے۔ عدالت نے جعلی لیز پر قائم تجاوزات کا بھی خاتمہ کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہاکہ جعلی لیز پر قائم مکانات، کمرشل تعمیرات فوری کرائی جائیں۔ عدالت نے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دے دیا ہے۔