طلاق اور خلع کی شرح کو کم کرنے کیلئے اولاد کی کردار سازی ،میڈیا کا صحیح استعمال ناگزیر ہے

652

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) طلاق اور خلع کی شرح کو کم کرنے کے لیے اولاد کی کردار سازی اور میڈیا کا صحیح استعمال ناگزیر ہے‘ والدین بچوں میں برداشت پیدا کریں‘ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کرنا سکھائیں‘ شادی کے لیے دھوکا، جھوٹ اور دکھاوا کرنے سے گریزکیا جائے‘ معاشرے میں خواہشات کے نہ رکنے والے سلسلے نے گھروں میں تباہی مچادی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ناظمہ جماعت اسلامی کراچی اسما سفیر، سندھ ہائی کورٹ اور وومن لائر فارم کے شعبہ ریسرچ کی انچارج افشاں سلیم ایڈووکیٹ اور نجمہ ظہیر ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’معاشرے میں طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟‘‘ اسما سفیر کا کہنا تھا کہ طلاق اور خلع کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے کے لیے اہم کام یہ ہے کہ ان عوامل پر غور کیا جائے جن کی وجہ سے یہ رجحان بڑھ رہا ہے جن میں صبر اور برداشت کی کمی، بیجا خواہشات، ایک دوسرے سے بہت زیادہ توقعات باندھنا، اپنے فرائض کے بجائے حقوق پر نظر رکھنا شامل ہے‘ ایک بڑی وجہ میڈیا پر نظر آنے والے برانڈز کے اشتہارات اور ڈراموں ہیں‘ جن نظر آنے والے امیر گھرانوں کے شاندار رہن سہن اور آسائش نے نوجوان اذہان کو متاثر کیا ہے‘ ان عوامل پر کام کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے نوجوانوں کی خصوصی تربیت کے لیے سول سوسائٹی اور والدین دونوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچوں میں صبر اور برداشت پیدا کریں‘ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کرنا سکھائیں اور خاندان یا علاقے کے بزرگ اور باشعور افراد پر مشتمل کائونسلنگ کا انتظام کرنا چاہیے جو نوجوانوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرے ان کو اپنے فرائض کی آگاہی دیں اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھائیں کہ خواہشات کی بے لگام طلب کو کنٹرول کیا جائے‘ خواہشات کا نہ رکنے والا سلسلہ جب شروع ہوتا ہے تو پھر گھروں میں تباہی لیکر آتا ہے اور ایک دوسرے کی قدر کم کردیتا ہے۔ افشاں سلیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ شوہر بیوی کا تعلق توڑنا اللہ کی جانب سے حلال کیے جانے والے تمام اعمال میں ناپسندیدہ ترین ہے‘ اسی لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے قرآن و سنت میں اس تعلق کو بنانے، قائم رکھنے اور حقوق و فرائض کی تمام تر تفصیلات کھول کر بیان فرمائی ہیں‘ موجودہ دور میں مزید سے مزید کی بے لگام خواہشات کے اثرات معاشرے کی جس اکائی پر سب سے زیادہ پڑ رہے ہیں وہ خاندان ہے اور خصوصاً میاں بیوی کا تعلق ہے‘ حقوق و فرائض کا شعور نہ ہونا اور بے حسی نے آج معاشرے کواس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ نکاح کے رشتے کی حفاظت ضروری ہوگئی ہے‘ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے2 سال کے دوران سندھ میں 5,891 خلع کے مقدمات عدالتوں میں درج ہوئے جس میں سے صرف 632 مقدمات 2019ء میں اور باقی سال2020ء میں درج ہوئے۔ اس لحاظ سے ان مقدمات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘ ان مقدمات میں سے 050 4 مقدمات صرف کراچی میں درج کیے گئے۔ اس اضافہ کی اہم وجہ کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن بھی ہے کیونکہ اس لوگوں کے معاشی حالات بھی خراب ہوئے ہیں‘ معاشی بحران، مہنگائی اور غربت سے خلع اور طلاق کی رفتار تیزی سے بڑھی ہے‘ اس میں میڈیا کا بے لگام ہونا اوراولاد کی تربیت نہ ہونا بھی شامل ہے‘ رشتہ کرتے وقت لڑکا، لڑکی اور ان کے والدین کی طرف سے دھوکا، جھوٹ اور دکھاوا اپنے عروج پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے شادی کے چند ماہ بعد ہی جب حقیقت سامنے آتی ہے تو رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے‘ ہمارا معاشرہ فی الوقت ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ایک خوش و خرم زندگی گزارنے کی تربیت دینے میں مکمل طور سے نا کام ہے‘ کوئی بھی معاشرہ صرف قوانین کے ذریعے نہیں بلکہ افراد کے آپس کے تعلق، اخلاص، اعلیٰ ترین اخلاقی اوصاف اور باہمی تعاون کے ساتھ ہی ترقی کر سکتا ہے‘ ہمارے معاشرے میں طلاق اورخلع کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک اہم وجہ عدالتوں سے خلع ملنے کے عمل میں بے انتہا آسانی اور عورت کے حقوق کی جانب جھکتا ہوا ہمارا قانونی نظام بھی ہے‘ اس نظام میں بھی اصلاحات کی شدید ضرورت ہے‘میڈیا ایک ایسا آلہ ہے کہ جس کے ذریے علم و شعور کو عام کیا جاسکتا ہے اور ایسے لوگوں کو بھی باشعور بنایا جاسکتا ہے جو کہ غربت یا دیگر وجوہات کی بنا پر کسی تعلیمی ادارے تک رسائی حاصل نہیں کرسکے‘ ماضی میں اس آلے کے ذریے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں یہاں اس واقعے کا ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ حکومت کو میڈیا کے ذریعے ہی قوم کو اس بات کی تعلیم دینی چاہیے بصورت دیگر حالات ہمارے ہاتھ سے بالکل باہر ہو جائیں گے۔نجمہ ظہیرایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ طلاق کے معنی گرہ کو کھول دینا ہے‘ معاشرے میں طلاق دینے اور خلع لینے کی بے پناہ وجوہات ہیں‘ اسی طرح ہم اس شرح کو کنٹرول بھی کرسکتے ہیں‘ جیسے مرد اور عورت کا ایک دوسرے کے خاندان کو عزت دینا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو درگزر کرنا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ معاشی استحکام ہے‘ کہا جاتا ہے چادر دیکھ کر پائوں پھیلائو اس لیے اپنی خواہشوں کو محدود رکھنا ضروری ہے‘ شادی سے پہلے اور بعد میں والدین کے ساتھ دوستانہ ماحول اور فیصلوں میں ایک دوسرے کو شامل کرنا اہم ہے‘ میاں بیوی کا ایک دوسرے پر اعتماد کرنا، آپس میں عزت و احترام رشتے کو محفوظ رکھتا ہے‘ ایک بار پھر مشترکہ خاندانی نظام کا ہونا ضروری ہے جس میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے‘ اسی طرح موبائل نے دنیا کو بہت تیزی سے تبدیل کردیا ہے‘ ہم نے مثبت کردار دکھانا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل خوابوں کی دنیا میں رہنے لگی ہے اور ان کی سوچ بھی اسی طرح پروان چڑھ رہی ہے‘خواہشوں اور امیدوں کا ٹوٹنا ہی رشتوں کے ٹوٹنے کا باعث بن رہا ہے‘ اس لیے ان کو کنٹرول کرنا ضروری ہے‘ اپنی اولاد کے کردارکو علم کے ذریعے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔