عدالت عظمیٰ کا شعبہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی کارکردگی پر سوال

239

اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں قائم شعبہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اپنی ذمے داری ادا نہیں کرتے تو کیا اس شعبے کے باقی رہنے کا کوئی جواز ہے؟یاد رہے کہ ایڈووکیٹس آن ریکارڈ عدالت عظمیٰ میں دائر ہونے والے ہر مقدمے کا ریکارڈ رکھنے اور اس کیس میں نئے کاغذات و دستاویزات جمع کرانے کے لیے سائلین سے فیس لیتے ہیںاور قواعد کے مطابق اگر کیس دائر کرنے والا اصل وکیل موجود نہ ہو تو اس کی جگہ عدالت میں پیش ہو کر دلائل دینا بھی اس ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی ذمے داری میں شامل ہے ،جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ٹیکس کے ایک کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کمشنر ان لینڈ ریونیو ملتان بنام فلاح الدین قریشی کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے ،4 صفحات پرمشتمل فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے ۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ قواعد کی روشنی میں اگر ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہو کر دلائل نہیں دیتا تو وہ مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوگا اور اس کے خلاف محکمانہ ایکشن لیتے ہوئے اس کا لائسنس معطل کیا جا سکتا ہے اور پریکٹس سے بھی روکا جا سکتا ہے۔