سوال: اگر کسی لڑکی کے نکاح کی بات چل رہی ہو، لیکن ابھی اس کا رشتہ طے نہ ہوا ہو تو کیا اس کے یہاں پیغام بھیجنا جائز ہے؟
جواب: حدیث میں پیغامِ نکاح پر دوسرا پیغام بھیجنے سے منع کیا گیا ہے۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نہ دے۔ ہاں اس وقت پیغام دے سکتا ہے، جب اسے معلوم ہوجائے کہ پہلے پیغام دینے والے نے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا ہے، یا وہ اسے پیغام دینے کی اجازت دے دے‘‘۔ (بخاری)
سیدنا عُقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
’’مومن مومن کا بھائی ہے۔ اس لیے مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام دے، یہاں تک کہ پہلے پیغام دینے والا نکاح کا ارادہ ترک کر دے‘‘۔ (مسلم)
فقہا کی رائے ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے، جب لڑکی والوں نے پہلے والے پیغام نکاح کو پسند کرلیا ہو اور اس کی منظوری کی اطلاع دے دی ہو۔ اس سے قبل کسی دوسرے شخص کے لیے پیغام نکاح دینے کی ممانعت نہیں ہے۔ اس کی دلیل سیدہ فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی حدیث ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے شوہر سیدنا ابوعمر بن حفصؓ نے انھیں طلاق دے دی۔ جب ان کی عدّت پوری ہو گئی تو وہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: میرے پاس معاویہ بن ابی سفیانؓ اور ابو جہمؓ کے پیغامات آئے ہیں۔ ان میں سے کس سے نکاح کرنا میرے لیے بہتر ہوگا؟ آپؐ نے انھیں ان دونوں کے بجائے سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔ (مسلم)
امام نوویؒ نے اس پر لکھا ہے:
’’پیغام نکاح پر پیغام دینے کی حرمت پر اجماع ہے، البتہ اس کی شرائط میں فقہا کا اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ حرمت اس صورت میں ہے جب مخطوبہ (جس لڑکی کے لیے پیغام دیا گیا ہو) یا اس کا ولی پیغام کو صراحت سے قبول کرلیں۔ اگر وہ پہلے پیغام کو صراحت سے رد کر چکے ہوں تو دوسرے شخص کے لیے پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر دوسرے شخص کو معلوم نہ ہو کہ پہلا پیغام لڑکی والوں کی طرف سے رد کر دیا گیا ہے یا نہیں تو وہ پیغام دے سکتا ہے، اس لیے کہ اصل جواز ہے۔ اگر لڑکی کی طرف سے پہلا پیغام نہ رد کیا گیا ہو نہ قبول کیا گیا ہو تو بھی دوسرے شخص کی طرف سے پیغام دینا جائز ہے۔ اس کی دلیل سیدنا فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی حدیث ہے۔ امام شافعیؒ کا قول ہے: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے، وہ عورت اس پیغام کو پسند کر لے اور اسے قبول کرنے کی طرف مائل ہو تو اس صورت حال میں کسی دوسرے شخص کی طرف سے پیغام نکاح دینا جائز نہیں، البتہ اگر دوسرے شخص کو عورت کی جانب سے پہلے پیغام کی پسندیدگی اور اس کی طرف میلان کا علم نہ ہو تو اسے پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ (المنھاج شرح مسلم، نووی)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر کسی لڑکی کے نکاح کی بات چل رہی ہو، لیکن ابھی اس کا رشتہ طے نہ ہوا ہو تو دوسرے شخص کے لیے اس کے یہاں پیغام بھیجنا جائز ہے۔