کرا چی (رپورٹ :خالد مخدومی )نفاذاسلام کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ علم اور عمل دونوں اعتبار سے نفاذ اسلام کی اہلیت رکھنے والے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچیں، علامہ اقبا ل نے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کے لیے قائد اعظم ؒ اور اسلامی نظام کی صورت گری کے لیے سید ابوالاعلیٰ موددویؒ کو منتخب کیا تھا، مسلم لیگ میں شامل سیکولر ذہن کے لوگوں نے ملک کوآئینی طور پر لادینیت کے راستے پر لے جانے کی کوشش شروع کی، سید مودودیؒ نے اسلامی نظام کی مہم کا آغاز کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا،خواجہ ناظم الدین کو اسلامی آئین کی سفارشات پیش کرنے پر پوری آئین ساز اسمبلی سمیت برطرف کر دیا گیا، جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور سول و فوجی بیوروکریٹ کی مشترکہ بالادستی پاکستانی عوام اور اس ملک میں اسلامی نظام کے نافذ کی راہ میں بنیادی روکاوٹ ہے ، آئین پر من و عن عمل ہوتو پاکستان دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر سامنے آئے گا، ان خیالات کا اظہار ممتاز دانشوروصحافی ثروت جمال اصمعی ، نائب امیر جماعت اسلامی کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی اور جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ اونس شاہ نورانی نے جسارت کے سوال پرجواب دیتے ہوئے کیا۔ ثروت جمال اصمعی نے کہاکہ تحریک پاکستان کی کامیابی پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ کے وعدے کا نتیجہ تھی لیکن قیام پاکستان کو پون صدی گزر جانے بعد بھی اسلام عملاً نافذ نہیں ہوسکا ، برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی قیادت کی جانب سے پاکستان میں نفاذاسلام کی یقین دہانی ہی نے پاکستان کے حصول کی جدوجہد کے لیے متحد کردیا تھا ،ان کاکہنا تھاکہ علامہ اقبا ل نے ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی قیادت کے لیے قائد اعظم ؒ اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کی صورت گری کے لیے سید ابوالاعلیٰ موددویؒ کو منتخب کیا تھا اور پٹھان کوٹ میں تحقیقی ادارے دارالاسلام کا قیام سید مودودی کی سربراہی میں علامہ اقبال کی تجویز اور ہدایت ہی پر عمل میں آیا تھا قائد اعظم حقیقت کا پوراشعور رکھتے تھے کہ اسلام مکمل نظام زندگی ہے ، یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعدقائد اعظم کی ہدایت پر مولانا مودودیؒ کی رڈیو پر تقاریر کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں انہوں نے اسلام کے اخلاقی، سیاسی، سماجی اور معاشی نظام پر روشنی ڈالی۔ لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا بلکہ جب مسلم لیگ میں شامل سیکولر ذہن کے لوگوں نے ملک کوآئینی طور پر لادینیت کے راستے پر لے جانے کی کوشش شروع کی اور سید مودودیؒ نے اسلامی نظام کی مہم کا آغاز کیا تو سیفٹی ایکٹ نامی قانون کے تحت انہیں گرفتار کرکے حوالہ زنداں کر دیا گیا۔تاہم قائد اعظم کی وفات کے صرف 6ماہ بعد 7 مارچ1949ء کو پاکستان کی پارلیمان نے قرارداد مقاصد کی شکل میں طے کردیا کہ اس ملک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق قانون سازی کرنی اور ملک چلانا ہے۔شہید ملت لیاقت علی خان ا س موقع پر جو تقریر کی وہ نفاذاسلام کے مقصد میں پوری سنجیدگی اور اخلاص کا آئینہ دار ہے۔تاہم اس کے بعد مغرب زدہ سیکولر عناصر نے ملک کو ہائی جیک کرلیا،لیاقت علی خان ایک سازش کے ذریعے شہید کردیے گئے خواجہ ناظم الدین کے دور میں اسلامی آئین کی تیاری کے لیے سفارشات مرتب کی گئیں تو ان کی حکومت ہی نہیں بلکہ پوری آئین ساز اسمبلی ہی کی بساط لپیٹ دی گئی اور سول و ملٹری بیورو کریسی کے نمائندوں غلام محمد اور جنرل ایوب خان نے باہمی گٹھ جوڑ سے ملک پر قبضہ کرلیا اس غیرقانونی اقدام کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے کر نہ صرف اس سازش بلکہ اس کے بعد مسلسل ہونے والی ایسی بہت سی سازشوں کی کامیابی کی راہ ہموار کردی۔اس کے باوجود 1956ء میں چودھری محمد علی کی وزارت عظمیٰ کے دوران ملک کے پہلے دستور کی تیاری اور نفاذ کے مراحل طے ہوگئے۔ اس آئین کے تحت ملک میں فروری 1959 ء میں پہلے عام انتخابات طے پائے تھے لیکن اس سے پہلے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی حیرت انگیز کامیابی نے دین بیزار ملکی طاقتوں نے خطرہ محسوس کیا کہ عام انتخابات میں اسلامی قوتیں اکثریت حاصل کرلیں گی لہٰذا ممتاز بیورو کریٹ روئیداد خان کے تحریری انکشاف کے مطابق امریکہ کے اشارے پر صدر مملکت ریٹائرڈ میجر جنرل اسکندر مرزا اور افواج پاکستان کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اتفاق رائے سے آئین، پارلیمنٹ اور سول حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لگادیا یہ دور 10 سال چلا احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ایوب خان اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ کررخصت ہوئے ۔ان کے دور میں پہلے عام انتخابات ہوئے لیکن نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا بچے کھچے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مسند اقتدار پر فائز ہوئے اور ان کی سربراہی میں اسلامی دفعات کے ساتھ 1973کا دستور مرتب اور نافذ ہوا جو اب تک برقرار ہے ۔بھٹو حکومت کا خاتمہ تقریباًپا5سال بعد جنرل ضیاء الحق نے کیا اور قوم سے0 9دن میں الیکشن کا وعدہ کیا‘ ان کا دور بھی گیارہ سال جاری رہا۔ تاہم اس دور میں آئین کی اسلامی دفعات کو مؤثر بنانے کا کام ضرور ہوا جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ قرارداد مقاصد کو دستور کا محض دیباچہ بنائے رکھنے کے بجائے قابل نفاذ حصہ بنادیا گیا۔ہمارے موجودہ دستور میں علمائے کرام کے مرتب کردہ بائیس نکات بڑی حد تک شامل ہیں۔ اگر اس آئین کو صحیح معنوں میں نافذ کیا جائے تو پاکستان عملی طور پر بھی ایک حقیقی اسلامی نظریاتی بن سکتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کے لیے جیسے رجال کار کی ضرورت ہے ہمارے منتخب ایوانوں میں ان کا فقدان ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران اپنی تحریروں میں سید مودودی نے یہ سوال اٹھاتے رہے تھے کہ جو لوگ نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں نہ ان کی عملی زندگیاں اسلام کے مطابق ہیں وہ پاکستان کو اسلامی نظریاتی ریاست بنانے کا وعدہ کیسے پورا کرسکیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے ہمارے آج کے حکمراں ملک کو مدینے جیسی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں۔ایسا ہوجائے تو کیا کہنا لیکن کیا حکومت کے موجودہ کل پرزے اس کی اہلیت رکھتے ہیں؟ شاید ہی کوئی معقول آدمی اس سوال کا جواب اثبات میں دے سکے۔لہٰذا پاکستان میں نفاذاسلام کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ علم اور عمل دونوں اعتبار سے نفاذ اسلام کی اہلیت رکھنے والے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچیں۔ لیکن پون صدی میں ایسا ہوکیوں نہیں سکا؟اس کا جواب سید مودودیؒ کے الفاظ میں یہ ہے کہ ’’ جمہوری انتخاب کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے لہٰذا اگر سوسائٹی بگڑی ہوئی ہوگی تو اس کے ووٹوں سے منتخب ہوکر وہی لوگ برسراقتدار آئیں گے جو اس سوسائٹی کی خواہشات نفس سے سند مقبولیت حاصل کرسکیں گے۔‘‘ اسلامی ریاست نامی اپنی کتاب میں مولانا مزید کہتے ہیں کہ ’’ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی ، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔‘‘لہٰذا پاکستان میں نفاذاسلام کی منزل کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقی لحاظ سے مسلسل ابتری کا شکار ہوتے معاشرے کو دعوت و تربیت کے بنیادی کام کے ذریعے سے اسلامی اخلاق و کردار کی طرف واپس لانے کی ایک نہایت مؤثر مہم شروع کی جائے جسے سید مودودی معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کا طریقہ کہتے ہیں سوشلزم کو فکری میدان میں مات دینے کا یہ کام اسی ملک میں تحریک اسلامی نے کم و بیش 50 سال پہلے نہایت کامیابی سے انجام دیا تھا علامہ اقبال کی اسکیم کے مطابق اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کے لیے علم و تحقیق کا جو کام دارالاسلام پٹھان کوٹ میں ہونا تھا اسے ازسرنو پورے اہتمام سے شروع کیا جانا ضروری ہے۔جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ اویس شاہ احمد نورانی کے مطابق پاکستان ہم نے اللہ رب العزت سے اس وعدے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا کہ اس کا معنی اور مفہوم لا الہ الا اللہ ہو گا۔ اس بارے میں پاکستان کے لیے گیارہ لاکھ سے زائد شہید ہونے والے اور کروڑوں مسلمانوں کے ذہن میں معمولی سا بھی کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ لیکن پہلی چیز تو اس بارے میں پاکستان پر قابض اشرافیہ کا منافقت بھرا طرز عمل تھا جس نے آئین سازی کے عمل میں شکوک شبہات پیدا کیے۔ پھر قرارداد مقاصد ہمارے سامنے ایک واضح روڈمیپ تھا لیکن سیاسی عمل کو آمریت سے جب روندا گیا تو پھر یہ بھولی ہوئی داستان بن گیا۔ جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر اسامہ بن رضی نے کہاکہ کسی بھی ریاست کے اسلامی،غیر اسلامی یا سیکولر ہونے کا تعیں اس بات سے ہوگا کہ اس ریاست کا اقتدار اعلی کس گروہ کے ہاتھ میں ہے ،قائد اعظم نے قیام پاکستان کے فوری بعد ایک فوجی اکیڈمی کے دوران کہی تھی کہ میں نے چند افسران کی گفتگو سے اندازہ لگایا کہ وہ پاکستان کے آئیں کے بارے میں وہ رائے نہیں رکھتے جو یہاں کے کسی بھی شہری کی ہونا چاہیے انہوں نے افسران کو تلقیں کیکہ وہ آئیںکا مطالعہ کریں اس کی پاسداری اور اس پر عمل کیجے تاہم اللہ نے قائداعظم کو بہت جلد دنیا سے اٹھالیااور قائداعظم کی جلد رحلت بھی اس عظیم مقصد کی عدم تکمیل کی وجہ نبی اسامہ بن رضی کا کہنا تھاکہ پاکستان میں اسلامی نظام عدم نافذ کی بنیادی وجہ یہ ہے انگزیز نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے یہاں کا اقتدار اعلی اپنے تیارکردہ جاگیر دار طبقے اور اپنی تیار کردہ بیوروکریسی کے حوالے کیا پاکستان اپنے قیام کے وقت سے ہی جاگیر داروںاور سول بیوروکریسی کے ہاتھوں میں چلاگیا اور اس کے بعد فوجی مارشل لائوں نیاقتدار اعلی پر قبضہ کرلیااور آئیں کو ختم کردیا ان بحرانوں سے نکلنے کا طریقہ یہ تھاکہ پاکستان کا اسلامی نظر یات کے مطا بق آئیں بنتااور اس آئیں کے مطابق ملک آگے چلتا،ابتدائی سالوں میں ملک کے مقتدر طبقے نے ملکی آئیں بننے نہیں دیا گیااور جب یہ آئیں بن گیاتو اسی مقتدر طبقے نے اس کو ردی کی ٹوکری سمجھ لیا، اسامہ بن رضی کے مطابق ملک میں اس وقت جو نظام چل رہا ہے وہ جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور سول و فوجی بیوروکریسی کا نظام ہے اور چوہتر برسوں سے ان طبقات کی مشترکہ بالادستی ہی جو پاکستانی عوام اور اس ملک میں اسلامی نظام کے نافذ کی راہ میں بنیادی روکاوٹ ہے،اسامہ بن رضی کا مزید کہنا تھاکہ اسلامی نظام کے نافذ میں ایک بڑی روکاوٹ یہ بھی کہ پاکستان کے عوام کو آج تک انگریزنوں کے نظام سے اور اس کے پروردہ حکمران طبقے سے آج تک آذادی نہیں مل سکی اسی مقتدر طبقے نے پاکستان کے نظام حکمرانی ،نظام انتخاباوراختیارات پرقبضہ کیا ہوا جب تک اس کا سدباب نہیں ہوجاتااس وقت تک پاکستان اپنی اصل منزل ایک آذاد اسلامی ریاست کی منزل تک نہیںپہنچ سکتا۔