تاریخ کے ہر دور میں ظالم اور مظلوم موجود رہے ہیں۔ وہ معاشرے بے غیرتی کا شکار ہو جاتے ہیں جہاں مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو بدترین سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔ عدل پر مبنی معاشرے میں مظلوم کی داد رسی ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں عدل کا نظام قائم نہ ہو، مگر کچھ صاحبِ ہمت و باغیرت افراد متحد ہو کر ظلم کر مقابلہ کریں تو مظلوموں کی داد رسی ہوسکتی ہے۔ نبی اکرمؐ دنیا سے ظلم کو ختم کرنے کے لیے آئے تھے۔ آپؐ نے وہ نظام قائم کیا جس میں کوئی کسی پر ظلم نہیں ڈھا سکتا تھا۔ آپؐ نے وحی کی آمد سے قبل بھی یہ فریضہ ادا کیا۔ سیرت کی کتب میں یہ ایمان افروز واقعہ پڑھ کر انسان جھوم اٹھتا ہے۔
آپؐ کی زندگی کے یادگار واقعات میں سے ایک بہت اہم واقعہ وہ حلف ہے جو قریش کے مختلف خاندانوں کے چند افراد نے باہمی طور پر طے کیا۔ آپؐ بھی اس معاہدے میں ایک رکن کے طور پر شریک تھے۔ زیرنظر واقعہ آپؐ کی عمر مبارک کے بیسیویں سال کا ہے۔ عربوں کی ساری خرابیوں کے باوجود ان کے اندر ابھی تک اخلاق حسنہ کی بعض باقیات موجود تھیں۔ ظلم کے خلاف کبھی کبھار ان کی رگِ حمیت جاگ اٹھتی تھی اور وہ ظالم سے مظلوم کا حق دلانے کے لیے سینہ سپر ہو جاتے تھے۔
واقعے کی تفصیلات میں بیان کیا گیا ہے کہ قبیلہ بنو زبید کا ایک شخص کچھ مالِ تجارت لے کر مکہ آیا۔ اس کی بیٹی بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس تاجر سے اس کا سامان مکہ کے مشہور اور مالدار سردار عاص بن وائل نے خرید لیا۔ لیکن اس نے سینہ زوری کرتے ہوئے اس زبیدی تاجر کی بیٹی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہ اجنبی شخص خانہ کعبہ میں آیا اور کعبہ کا غلاف پکڑ کر بلند آواز سے روتے پیٹتے ہوئے فریاد کرنے لگا: اے شہر مکہ کے شرفا! تمھارے بااثر آدمی عاص بن وائل نے مجھ سے زبردستی میری بیٹی چھین لی ہے۔ میں مسافر اور مظلوم ہوں، تمھاری خدمت میں درخواست گزار ہوں کہ میری داد رسی کرو اور میری بیٹی مجھے واپس دلاؤ۔
قریش کے کچھ نوجوانوں نے اس مظلوم کی آہ و پکار سنی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ مردانگی کا تقاضا ہے اس مسافر کی دادرسی کی جائے۔ جب تاریخ میں ہم اس واقعے کا مطالعہ کرتے ہیں تو دل سے یہ بات اٹھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے اندر ایک مظلوم کی دادرسی کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے ان لوگوں کے دل خیر پر آمادہ کر دیے۔ طبقات ابن سعد کے مطابق سب سے پہلے بنو ہاشم، بنو امیہ، بنو زہرہ اور بنو مخزوم‘ چاروں اہم قبائل میں سے کچھ لوگوں نے مل کر اس مظلوم کی پکار پر لبیک کہا۔
امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں جن قبائل کے نام لکھے ہیں ان میں مظلوم کی پکار پر لبیک کہنے والے لوگ بنو ہاشم، بنو زہرہ اور بنو تَیم بن مرہ سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ سب سے پہلے مظلوم کی پکار پر لبیک کہنے والے سعادت مند قریشی آپؐ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے۔ ابنِ سعد نے یہ بھی لکھا ہے کہ عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہونے والے ان ارکان کے کھانے کا انتظام بھی زبیر بن عبدالمطلب نے ہی کیا تھا۔ علامہ حافظ ابن کثیر کے مطابق قبیلہ عبدالدار، مخزوم جمیح، سہم اور عدی بن کعب کے سامنے جب اس مظلوم نے عاص بن وائل کی شکایت کی تو انہوں نے اس کی حمایت میں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا۔ (البدایہ والنہایہ)
یہ کتنے لوگ تھے اس پر کوئی مستند حوالہ ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ البتہ گمان غالب یہ ہے کہ یہ لوگ درجن بھر کے لگ بھگ ہوں گے۔ نبی اکرمؐ ان میں پیش پیش تھے۔ یہ سب لوگ اس زبیدی کو اپنے ساتھ لے کر عاص بن وائل کے دروازے پر پہنچے۔ اسے باہر بلایا گیا اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ اس مظلوم پر تم نے کیوں ظلم ڈھایا ہے؟ اس نے کہا: میں نے کوئی ظلم نہیں کیا، وہ لڑکی کنیز ہے۔ جب مال کا سودا کیا تھا تو یہ لڑکی بھی میں نے اِس شخص سے خرید لی تھی۔ میں اس سے تمتع بھی کر چکا ہوں۔ عاص بن وائل کا جواب سن کر وفد کے لوگوں نے زبیدی سے وضاحت مانگی تو اس نے کہا: خانہ کعبہ کی عظمت و تقدس کی قسم! میں نے اپنی لڑکی بیچی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کنیز ہے، وہ میری بیٹی ہے اور اس شخص نے اپنی قوت کے بل بوتے پر زبردستی اسے اغوا کر کے اپنے گھر میں ڈال لیا ہے۔ اس پر وفد کے لوگوں نے سختی کے ساتھ عاص بن وائل سے بات کی تو اس بدبخت نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور زبیدی کی لڑکی اسے واپس دینا پڑی۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابھی تک عاص بن وائل نے اس لڑکی سے تمتع نہیں کیا تھا۔ اس کے واپس کرنے کے وقت اس نے ارکانِ وفد سے کہا کہ میں کل صبح لڑکی واپس کروں گا۔ ایک رات مجھے اس کے ساتھ گزار لینے دو۔ وفد کے تمام غیرت مند ارکان نے اسے سختی کے ساتھ اس ارادۂ بد پر شرم دلائی اور کہا کہ یہ ہرگز ممکن نہیں۔ چنانچہ اسے اپنے شیطانی ارادے پر عمل کا موقع نہ ملا۔ زبیدی کی بیٹی اسے واپس دلا دی گئی۔ اب اس نے اپنی بیٹی کو ساتھ لیا اور اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوگیا۔ جاتے ہوئے وہ اور اس کی بیٹی ان تمام نوجوانوں کو دعائیں دے رہے تھے، جنہوں نے ان کی دادرسی کی۔ مظلوم کی بددعا بھی ربّ عرش تک بلا روک ٹوک پہنچتی ہے اور اس کی دعا بھی۔ وہ قریشی نوجوان خوش نصیب تھے جنہوں نے مظلوم سے دعائیں لیں۔
جب اس تنازعے کا فیصلہ بحسن و خوبی ہو گیا تو وفد کے ارکان میں سے بعض نے مشورہ دیا کہ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم آپس میں حلف اٹھائیں کہ ہم ظالم کے مقابلے پر ہر مظلوم کی مدد کریں گے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ چنانچہ یہ سب لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر پر اکٹھے ہوئے اور اللہ کے نام پر سب نے حلف اٹھایا، جس کے الفاظ یہ تھے: ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ غصب شدہ چیز مالک کو واپس دلائیں گے۔ اور آج کے بعد کسی پر ظلم کو برداشت نہیں کریں گے، ہر مظلوم کی دادرسی ہوگی اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی جائے گی‘‘۔ الفضول کا معنی ہے کہ وہ چیز جو ظلم کے ساتھ چھینی جائے۔ نبی اکرمؐ فرمایا کرتے تھے: میں نے عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جو حلف اٹھایا تھا، آج اسلامی دور میں بھی اگر کوئی مجھے اس کی طرف دعوت دے تو میں لبیک کہوں گا۔ (البدایہ والنہایہ)
اس حلف کو حلف الفضول کہنے کی تین وجوہات بیان کی گئی تھیں۔ ایک تو یہ کہ حلف میں جتنی باتیں کی گئی تھیں وہ اخلاقی فضائل کے زمرے میں آتی ہیں، دوسری یہ کہ فضول اس متاع کو کہا جاتا ہے جو جبر و ظلم سے چھین لی جائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس حلف میں شامل ہونے والے افراد میں سے تین کے نام فضل تھے۔ مورخ حلبی نے اپنی تاریخ میں مزید ایک وجہ بیان کی ہے کہ ان لوگوں نے یہ بھی حلف اٹھایا تھا کہ اپنی کمائی میں سے ضروریات سے زائد مال مہمانوں کی ضیافت کے لیے خرچ کریں گے۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ تین ارکانِ حلف اس نام سے موسوم تھے: (1) الفضل بن فضالہ، (2) الفضل بن وداعہ، (3) الفضل بن الحارث۔ یہ ابن قتیبہ کی روایت میں بیان ہوئے ہیں۔ جبکہ ابن کثیر نے دوسری روایت مورخ سْہیلی کے حوالے سے لکھی ہے اور اس میں یہ نام آئے ہیں: الفضل بن شراعہ، الفضل بن وداعہ اور الفضل بن فضاعہ۔ (البدایہ والنہایہ)
نبی اکرمؐ اپنی پوری زندگی میں جب بھی اس حلف کو یاد کرتے تو اس کی تعریف ضرور فرماتے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: عبداللہ بن جدعان کے گھر پر میں نے جس حلف میں حصہ لیا تھا (مجھے اس کا اتنا احترام ہے کہ) اگرکوئی مجھے سرخ اونٹوں کا گلہ بھی پیش کرے تو میں اس کو ہرگز نہیں توڑوں گا۔ آج دورِ اسلام میں بھی مجھے کوئی اس حلف کی طرف بلائے گا تو میں اس کا مثبت جواب دوں گا۔ زمانۂ جاہلیت میں قریش کے اہلِ خیر نے جتنے اچھے کام کیے ہیں، یہ ان میں سے ایک بہت عظیم کارنامہ ہے۔ آپؐکی بعثت سے قبل اس واقعے کا ظہور اللہ کی طرف سے ایک خاص نعمت تھی جس پر آپؐ نے ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ (البدایہ والنہایہ)