سرکاری دفاتر میں باپ کی جگہ بیٹے کی نوکری کا قانون عجیب ہے،چیف جسٹس

250

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ باپ کی جگہ بیٹے کو نوکری دینے کا قانون ہی عجیب ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ باپ کا انتقال ہوتو بیٹا بھرتی ہوجائے۔دوران سروس انتقال کرنے والے ملازمین کے بچوں کونوکری دینے سے متعلق عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے کہا کہ سرکاری ملازمت کے اہل وہی بچے ہوں گے جن کے والد کا انتقال2005ء کے بعد ہوا ہو، 2005ء سے پہلے انتقال کرنے والے ملازمین کے بچوں پر وزیراعظم پیکج لاگو نہیں ہوگا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سرکاری دفاتر وراثت میں ملنے والی چیز تو نہیں ہیں، اس طرح نوکریاں دینے سے میرٹ کا مکمل خاتمہ ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ باپ کا انتقال ہوتو بیٹا بھرتی ہوجائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پریہ قانون پولیس اور دیگر شہدا کے لیے تھا، کم آمدن والے ملازمین کے لیے قانون بنا تھا لیکن بھرتی افسران کے بچے ہوتے ہیں، اے ایس آئی کا بیٹا کہتا ہے ڈائریکٹ ڈی ایس پی بھرتی کرو۔دورانِ سماعت درخواست گزار سراج محمد نے مؤقف اپنایا کہ والد کی جگہ بھرتی ہونے کی درخواست دی جو وفاقی وزارت تعلیم نے مسترد کردی۔ پشاور ہائیکورٹ نے مجھے بھرتی کرنے کا حکم دیا ہے، قربانی تو سب کی برابرہوتی ہے،2005ء سے پہلے کی ہو یا بعد کی۔عدالت نے درخواست گزار کا مؤقف سننے کے بعد پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے د یا۔